Tumgik
#Pakistan Economy Crisis
thegandhigiri · 6 months
Text
Pakistan Economy Crisis: पाकिस्तान की बर्बादी के लिए भारत जिम्मेदार नहीं: नवाज़ शरीफ़
लाहौर: पाकिस्तान के पूर्व प्रधानमंत्री नवाज शरीफ (Nawaz Sharif) ने मंगलवार को कहा कि न तो भारत और न ही अमेरिका की वजह से पाकिस्तान नकदी संकट (Pakistan Economy Crisis) से जूझ रहा है। बल्कि पाकिस्तान की जनता ने अपने पैरों पर कुल्हाड़ी मारी है।शरीफ ने देश में बढ़ रहे सभी संकटों के लिए शक्तिशाली सैन्य प्रतिष्ठान को जिम्मेदार ठहराया है। पाकिस्तान मुस्लिम लीग-नवाज (Pakistan Muslim League – N) के टिकट के…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
jaideepkhanduja · 1 year
Text
Economic Crisis in Pakistan #EconomicCrisis #Pakistan
Pakistan is currently facing a multi-dimensional economic crisis, characterized by high inflation, large fiscal and current account deficits, and low growth. The main factors contributing to the crisis include: Energy crisis: Pakistan has struggled with energy shortages for years, which have hampered economic growth and increased production costs. Political instability: Political turmoil and…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
کیا معیشت دم توڑ چکی ہے؟
Tumblr media
کمال فنکاری بلکہ اوج ثریا سے منسلک لازوال عیاری سے اصل معاملات چھپائے جا رہے ہیں۔ جذباتیت‘ شدید نعرے بازی اور کھوکھلے وعدوں سے ایک سموک سکرین قائم کی گئی ہے جس میں ملک کی ریڑھ کی ہڈی‘ یعنی معیشت کے فوت ہونے کے المیہ کو خود فریبی کا کفن پہنا کر چھپایا جا رہا ہے۔ ذمہ داری سے گزارش کر رہا ہوں کہ پاکستان کی معیشت دم توڑ چکی ہے۔ دھوکہ بازی کے ماہر بھرپور طریقے سے غلط اعداد فراہم کر رہے ہیں۔ قوم کو اصل حقیقت سے مکمل دور کر دیا گیا ہے۔ مگر انفارمیشن کے اس جدید دور میں لوگوں کو مسلسل فریب دینا ناممکن ہو چکا ہے۔ طالب علم کو کوئی غرض نہیں کہ سیاسی حالات کیا ہیں۔  کون پابند سلاسل ہے اور کون سا پنچھی آزاد ہوا میں لوٹن کتوبر کی طرح قلابازیاں کھا رہا ہے۔ اہم ترین نکتہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات کیا ہیں؟ کیا وہ بہتری کی جانب رواں دواں ہیں یا ذلت کی پاتال میں گم ہو چکے ہیں۔ عوام کی بات کرنا بھی عبث ہے۔ اس لیے کہ اس بدقسمت خطے میں ڈھائی ہزار برس سے عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
عام آدمی چندرگپت موریا اور اشوکا کے زمانے سے دربدر ہے۔ اور اگر ہمارے خطے میں جوہری تبدیلی نہ آئی یا نہ لائی گئی۔ تو یقین فرمائیے کہ کم از کم پاکستان میں حسب روایت اور تاریخ کے غالیچے پر براجمان طبقہ تباہی کا صور اسرافیل پھونک رہا ہے۔ معیشت کو ٹھیک سمت میں اگر موجودہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ نہیں لے کر جائے گا تو پھر کون یہ اہم ترین کام کرے گا۔ غور کیجیے۔ اگر کوئی ایسی بیرونی اور اندرونی منصوبہ بندی ہے کہ پاکستان کو سابقہ سوویت یونین کی طرز پر آرے سے کاٹنا ہے ۔ تو پھر تو درست ہے ۔ مگر وہ کون لوگ اور ادارے ہیں جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ملکی معیشت کو دفنانے کی بھرپور کوشش میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کی عقابی نظرسے کوئی امر پوشیدہ نہیں ہے۔ تو پھر ملکی معیشت کا جنازہ کس طرح نکال دیا گیا۔ ڈاکٹر اشفاق حسین جیسے جید معیشت دان‘ گال پیٹ پیٹ کر ملک کی معاشی زبوں حالی کا ذکر عرصے سے کر رہے ہیں۔ کیوں ان جیسے دانا لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ گمان تو یہ ہے کہ واقعی ایک پلان ہے‘ جس میں مرکزیت صرف ایک سیاسی جماعت کو ختم کرنا ہے۔ اس اثناء میں‘ اگر معیشت ختم ہو گئی تو اسے زیادہ سے زیادہ Collateral damage کے طور پر برداشت کرنا ہے۔
Tumblr media
صاحبان! اگر واقعی یہ سب کچھ آدھا جھوٹ اور آدھا سچ ہے۔ تب بھی مشکل صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی اداروں کے سامنے ہم گھٹنوں کے بل نہیں بلکہ سربسجود ہونے کے باوجود ’’ایک دھیلہ یا ایک پائی‘‘ کا قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ سچ بھرپور طریقے سے چھپایا جا رہا ہے۔ وزیرخزانہ کے نعروں کے باوجود ورلڈ بینک پاکستان کی کسی قسم کی کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس پر کمال یہ ہے کہ وزیراعظم ‘ وزیراعلیٰ ‘ گورنر صاحبان ‘ وزراء اور ریاستی اداروں کے سربراہان ہر طرح کی مالی مراعات لے رہے ہیں۔ جن کا ترقی یافتہ ممالک میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری ہوائی جہاز‘ سرکاری ہیلی کاپٹر‘ حکومتی قیمتی ترین گاڑیاں‘ رکشے کی طرح استعمال کی جا رہی ہیں۔ چلیئے‘ اس ادنیٰ اداکاری کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے۔ تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک سال سے تو کسی قسم کا کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ کسی قسم کی ایسی بات نہیں کر رہا‘ جس کا ثبوت نہ ہو۔ 
ایکسپریس ٹربیون میں برادرم شہباز رانا کی ملکی معیشت کے متعلق رپورٹ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ یہ چھبیس مئی کو شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ‘ پاکستان کی معیشت سکڑ کر صرف اور صرف 341 بلین ڈالر تک آ چکی ہے۔ یہ ناقابل یقین کمی‘ ملکی معیشت کا نو فیصد ہے۔ یعنی گزشتہ ایک برس میں اقتصادی طور پر ملک خوفناک طور پر غرق کیا گیا ہے۔ یہ 34 بلین ڈالر کا جھٹکا ہے۔ اس کی وضاحت کون کرے گا۔ اس کا کسی کو بھی علم نہیں۔ انفرادی آمدنی‘ پچھلے اقتصادی برس سے گیارہ فیصد کم ہو کر 1568 ڈالر پر آ چکی ہے۔ یعنی یہ گیارہ فیصد یا 198 ڈالر کی کمی ہے۔ یہ اعداد و شمار کسی غیر سرکاری ادارے کے نہیں‘ بلکہ چند دن قبل نیشنل اکاؤنٹس کمپنی (NAC) میں سرکاری سطح پر پیش کئے گئے تھے۔ اور ان پر سرکار کی مہر ثابت ہو چکی ہے۔ معیشت کا سکڑنا اور انفرادی آمدنی میں مسلسل گراؤٹ کسی بھی حکومت کی ناکامی کا اعلانیہ نہیں تو اور کیا ہے۔ تف ہے کہ ملک کے ذمہ دار افراد میں سے کسی نے اس نوحہ پر گفتگو کرنی پسند کی ہو۔ ہاں۔ صبح سے رات گئے تک‘ سیاسی اداکار‘ سیاسی مخالفین کے لتے لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب تو سیاسی مخالفین کو غدار اور غیر محب وطن ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی تواتر سے بانٹے جا رہے ہیں۔ ماضی میں یہ کھیل کئی بار کھیلا جا چکا ہے۔
ہم نے ملک تڑوا لیا۔ لیکن کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت سے بھی کھیلا جا رہا ہے۔ عمران خان تو خیر‘ سیاست کی پیچیدگیوں سے نابلد انسان ہے۔ مگر موجودہ تجربہ کار قائدین کیوں ناکام ہو گئے ہیں۔ خاکم بدہن‘ کہیں ملک توڑنے کا نسخہ‘ دوبارہ زیر استعمال تو نہیں ہے۔ وثوق سے کچھ کہنا ناممکن ہے۔ معیشت پر برادرم شہباز رانا کی رپورٹ میں تو یہاں تک درج ہے کہ بیورو آف سٹیسٹسکس (BOS) کو جعلی اعداد و شمار دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ دباؤ حکومت وقت کے سرخیل کی طرف سے آیا ہے۔ بیورو نے ملکی معیشت کو منفی 0.5 فیصد پر رکھا تھا۔ مگر اس رپورٹ کے بقول وزارت خزانہ اور دیگرطاقتور فریقین نے یہ عدد جعل سازی سے تبدیل کروا کر مثبت 0.3 فیصد کروایا ہے۔ دل تھام کر سنیے۔ ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح دو فیصد ہے۔ اگر 0.3 فیصد ملکی ترقی کو تسلیم کر بھی لیا جائے۔ تب بھی ملکی معیشت 1.7 فیصد منفی ڈھلان پر ہے۔ یہ معاملات کسی بھی ملک کی بربادی کے لیے ضرورت سے زیادہ ہیں۔ ہمارے دشمن شادیانے بجا رہے ہیں۔ اندازہ فرمائیے کہ اس رپورٹ کے مطابق‘ موجودہ حکومت نے 2022ء کے سیلاب میں دس لاکھ جانوروں کے نقصان کا ڈھنڈورا پیٹا تھا۔ Livestock سیکٹر کی بات کر رہا ہوں۔ مگر BOS کے مطابق حکومت کے یہ اعداد بھی مکمل طور پر غلط ہیں۔
سرکاری ادارے کے مطابق جانوروں کا نقصان صرف دو لاکھ ہے۔ سوچیئے۔ عالمی برادری اور ادارے‘ ہمارے اوپر کس طرح قہقہے لگا رہے ہونگے۔ اس تجزیہ کے مطابق زراعت کے شعبہ میں نمو 1.6 فیصد رکھی گئی ہے۔ یہ عدد بھی کسی بنیاد کے بغیر ہوا میں معلق ہے۔ وجہ یہ کہ کپاس کی فصل اکتالیس فیصد کم ہوئی ہے۔ کپاس کو روئی بنانے کے عمل میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چاول کی فصل میں اکیس فیصد کمی موجود ہے۔ یہ سب کچھ برادرم شہباز رانا کی شائع شدہ رپورٹ میں درج ہے۔ مگر ذرا میڈیا ‘ میڈیا رپورٹنگ پر نظر ڈالیے ۔ تو سوائے سیاست یا گالم گلوچ کے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وہاں کوئی بھی ’’مہاشے‘‘ ذکر نہیں کرتا کہ معیشت بھی مقدس ہے۔ اگر یہ بیٹھ گئی تو سب کچھ عملی طور پر ہوا میں اڑ جائے گا۔ مگر کسی بھی طرف سے کوئی سنجیدہ بات سننے کو نہیں آتی۔ وزیر خزانہ کے یہ جملے‘ ’’کہ ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔ بس فکر کی کوئی بات نہیں۔ ان پر شائد میرے جیسے لا علم اشخاص تو یقین کر لیں۔ مگر سنجیدہ بین الاقوامی اقتصادی ادارے اور ماہرین صرف ان جملوں پر ہنس ہی سکتے ہیں۔ 
معیشت ڈوب گئی تو پچیس کروڑ انسان‘ کتنے بڑے عذاب میں غرقاب ہو جائیںگے۔ اس پر بھی کوئی بات نہیں کرتا۔ موجودہ حکومت کی سیاست‘ سیاسی بیانات اور کارروائیاں ایک طرف۔ مگر عملی طور پر ہماری معیشت دم توڑ چکی ہے۔ صرف سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ سوال ہو سکتا ہے کہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ اس کا جواب صرف یہ ہے‘ کہ ہماری بلیک اکانومی حد درجہ مضبوط اور فعال ہے۔ یہ واحد وجہ ہے کہ ہم خانہ جنگی میں نہیں جا رہے۔ مگر شائد تھوڑے عرصے کے بعد‘ یہ آخری عذاب بھی بھگتنا پڑے۔ مگر حضور‘ تھوڑا سا سچ بول ہی دیجئے۔ مردہ معیشت کی تدفین کب کرنی ہے!
راؤ منظر حیات 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes · View notes
swamyworld · 19 days
Text
Pak PM Shahbaz Sharif in new trouble should handle economic Crisis or Government Cabinet ministers split over Privatization - International news in Hindi
read on app Pakistan Cabinet Splits on Privatization: Pakistan, which is facing cash crunch, has announced the privatization of most of its public enterprises, including the loss-making Pakistan International Airlines. Announcing this on Tuesday, Prime Minister Shehbaz Sharif said that initially only loss-making government companies will be privatized. He said that at present it has been decided…
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 1 month
Text
بیرونی قرضوں پر انحصار سے نجات کیسے؟
Tumblr media
پاکستان اپنے قیام سے ہی غیر ملکی قرضوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا آ رہا ہے۔ اس رجحان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان کے قرضوں کا حجم مجموعی قومی پیداوار کے 90 فیصد تک پہنچ چکا ہے جو کہ مالیاتی رسک اور قرض کی حد بندی ایکٹ 2005ء کی مقرر کردہ 60 فیصد حد سے بھی زیادہ ہے۔ بیرونی قرضوں کے حجم میں اضافے کی وجہ سے گزشتہ بیس سال کے دوران قومی ترقیاتی اخراجات کا حجم 20 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد پر آ گیا ہے جس کی وجہ سے صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں پر حکومتی سرمایہ کاری مسلسل کم ہو رہی ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماضی میں ترقی کی شرح میں اضافے کیلئے قرض لینے کی پالیسی کے قومی معیشت پر مثبت اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بیرونی قرضے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو تجارتی خسارے کو سنبھالنے اور اہم شعبوں کو فنڈ دینے کیلئے مالی معاونت کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ اس صورتحال میں نئی حکومت کیلئے جاری معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ مختلف ترقیاتی اشاریوں اور جمع شدہ غیر ملکی قرضوں کے درمیان روابط کا باریک بینی سے تجزیہ کرے۔
اس طرح کی جانچ پڑتال ملک کے معاشی بحرانوں سے نمٹنے اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کیلئے موثر حکمت عملی وضع کرنے کیلئے ضروری ہے۔ ہمارے لئے یہ موازنہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی معیشت اس وقت جس معاشی بحران سے دوچار ہے اس کی بڑی وجہ بیرونی قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم ہے جو معاشی استحکام کیلئے خطرہ بن چکا ہے۔ قومی معیشت پر بیرونی قرضوں کے بوجھ کی ایک بڑی وجہ پاکستان کی آبادی میں ہونے والا تیز رفتار اضافہ بھی ہے۔ اس خطرے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آبادی کے حجم کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جبکہ معاشی لحاظ سے پاکستان دنیا میں 46ویں نمبر پر ہے۔ اس کے برعکس امریکہ، چین اور بھارت ناصرف آبادی کے اعتبارسے دنیا کے تین بڑے ممالک ہیں بلکہ معاشی لحاظ سے بھی وہ دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں ہیں۔ یہ حالات معاشی اور مالیاتی نظم و نسق میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ دیگر ترقی پذیر ممالک بھی بیرونی قرضوں کو مالیاتی خسارہ پورا کرنے اور ترقیاتی منصوبوں کو فنڈ دینے کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ قرضے براہ راست اور بالواسطہ طور پر تجارت، افراط زر، شرح مبادلہ، کھپت، سرمایہ کاری، جی ڈی پی کی نمو اور قرضوں کی ادائیگی جیسے معاشی عوامل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
Tumblr media
اس وقت پاکستان جس معاشی بدحالی کے دہانے پر کھڑا ہے اس کا تقاضا ہے کہ بیرونی قرضوں پر انحصار کم کر کے فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنا کرپائیدار ترقی کو فروغ دینے اور قرض کے انتظام کی صلاحیت کو بہتر بنانے پر کام کیا جائے۔ علاوہ ازیں کرنسی کی قدر میں کمی، افراط زر، سیاسی عدم استحکام اور متضاد اقتصادی پالیسیوں جیسے عوامل کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو غیر ملکی قرضوں پر کم انحصار کو ترجیح دیتے ہوئے طویل مدتی قرض کے انتظام کی ایک جامع حکمت عملی وضع کرنی چاہئے۔ یہ حکمت عملی موجودہ قرضوں کی ادائیگی، نئے قرضوں کے جمع ہونے کو روکنے اور فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنانے پر مشتمل ہونی چاہئے۔ قرض لینے کی لاگت کو کم کر کے، قرض کی پائیداری کو بڑھا کر، سرمایہ کاروں کے اعتماد و شفافیت کو فروغ دے کر اور اقتصادی ترقی کو سہارا دے کربیرونی قرضوں کو لاحق خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے روایتی عالمی مالیاتی اداروں سے ہٹ کر غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا، بین الاقوامی منڈیوں میں بانڈز جاری کرنا، مالی امداد کے متبادل راستے تلاش کرنا مخصوص قرض دہندگان پر انحصار کم کر سکتا ہے۔
چین، بھارت اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنا کر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سےنجات حاصل کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں چین کی جانب سے مختلف کرنسیوں میں قرض کے اجراء نے کرنسی کے اتار چڑھاو کے اندیشے کو کم کیا ہے اور سرمایہ کاروں کی منڈیوں کو وسیع کیا ہے۔ ہندوستان کی طرف سے مختلف کرنسیوں میں بانڈز جاری کرنے سے قرض لینے کی لاگت کم ہوئی ہے۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے سکوک بانڈز کے اجراء نے اپنے سرمایہ کاروں کی بنیاد کو متنوع بنانے کے لیے اسلامی مالیاتی اصولوں کی تعمیل کرتے ہوئے فنڈنگ کے نئے ذرائع کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ بیرونی قرضوں پر معاشی انحصار کم کرنے کے لیے طویل المدت بنیادوں پر ادارہ جاتی اصلاحات کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ایسا کرنے میں ناکامی مستقبل کی نسلوں کو بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے مزید دبانے کے مترادف ہو گی جسے کسی طرح بھی قومی مفاد میں قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ادارہ جاتی اصلاحات کے علاوہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کر کے اور برآمدات پر مبنی صنعتوں کو فروغ دے کر قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں سرکاری عملے کی تربیت اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے ذریعے بیرونی قرضوں کے استعمال میں شفافیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان کی خوشحالی کا راستہ پیداواری صلاحیت اور برآمدات میں اضافے، توانائی کی لاگت کو کم کرنے اور زراعت میں سرمایہ ��اری کرنے میں مضمر ہے۔
کاشف اشفاق 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingkarachi · 5 months
Text
معاشی بحران اور بیوروکریسی کی مراعات
Tumblr media
ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ عوام مہنگائی کے ہمالیہ پہاڑکے نیچے سسک رہے ہیں۔ ہر مہینہ بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی مزید ایک روپیہ 25 پیسے مہنگی ہونے کے اعلان ہو رہے ہیں، ادھر یہ حقائق عوام کو ریاست سے دور کیے جا رہے ہیں، ملک کو ڈالرکی قلت کا سامنا ہے۔ دوسری طرف ایسے ریٹائرڈ افسروں کو جوغیر ممالک میں اپنی مرضی سے مقیم ہیں انھیں ڈالر اور یورو میں پنشن ادا کی جارہی ہے۔ وزارت خارجہ کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق ایسے پنشنرز کی تعداد 164 کے قریب ہے جنھیں غیر ملکی کرنسی میں ہر ماہ پنشن ادا کی جاتی ہے، جس کی مالیت 200 ملین روپے کے قریب ہے۔ یہ حقائق کبھی سامنے نہیں آتے مگر آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کی شق 19-A کے تحت عوام کو یہ حقائق جاننے کا موقع مل گیا۔ سول سوسائٹی کے متحرک اراکین کی کوششوں سے وفاق اور چاروں صوبوں میں اطلاعات کے حصول کے جامع قوانین نافذ ہیں اور وفاق میں عوام کے اس حق کی تسکین کے لیے کمیشن قائم ہے۔ سول سوسائٹی کے کارکن نعیم صادق نے درخواست کی تھی کہ ان ریٹائرڈ افسروں کے نام افشا کیے جائیں جو بیرون ممالک مقیم ہیں اور ان کو ان کی پسند کی غیر ملکی کرنسی میں رقم ادا کی جاتی ہے۔ انھیں یہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
انھوں نے وزارت خارجہ سے رجوع کیا مگر وہاں بھی کچھ نہیں ہوا۔ کسی دانا شخص کے مشورہ پر انھوں نے اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان کو عرضداشت بھیجی مگر یہاں سے بھی معلومات فراہم نہیں ملی۔ انفارمیشن کمیشن سے یہ معلومات نہ ملی۔ نعیم صادق نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے قانون پر عملدرآمد کے لیے درخواست کی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس اہم مسئلہ پر فوری توجہ دی اور وزارت خارجہ نے آخرکار معلومات فراہم کرنی پڑی۔ وزارت خارجہ کی تصدیق شدہ اطلاعات کے مطابق ریٹائرڈ سول اور فوجی افسروں میں جو اپنی مرضی سے بیرونِ ممالک میں مقیم ہیں ان کو 200 ملین روپے کی خطیر رقم فراہم کی جاتی ہے۔ نعیم صادق کا مدعا ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ کا زیاں آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 25 ریاست کو تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کا پابند کرتا ہے۔ گزشتہ مالیاتی سال سے تمام وفاقی وزارتیں اور صوبائی حکومتیں شدید مالیاتی بحران کا شکار ہیں ۔ گزشتہ ایک سال سے شایع ہونے والی خبروں کے مطابق وزارت خارجہ غیر ممالک میں تعینات سفارتی عملہ کو ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تنخواہیں ادا نہیں کر پا رہی ہے۔
Tumblr media
کئی ممالک میں تعینات عملہ کوکئی ماہ تک تنخواہیں نہیں ملتی ہیں۔ سفارت خانوں میں دیگر اخراجات کے لیے بجٹ دستیاب نہیں ہے، صرف وزارت خارجہ ہی نہیں دیگر وفاقی وزارتوں میں بھی صورتحال خراب ہے۔ اسلام آباد کے 5 سرکاری اسپتالوں اور لاہور کے شیخ زید اسپتال کو متحرک رکھنے کے لیے 11 بلین روپے کی گرانٹ دینے کے لیے رقم دستیاب نہیں ہے۔ ملک کے سب سے بڑے انگریزی کے اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور دیگر عملہ کو تنخواہوں کی ادائیگی تو کئی ماہ سے نہیں ہو سکی مگر اب ان اسپتالوں کی لیب، ایکسرے اور دیگر شعبے بھی عملاً بند ہیں۔ اسلام آباد کے سرکاری ملازمین اور عام شہریوں کے لیے یہی وفاق کے پانچ اسپتال علاج کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ وفاقی وزارت تعلیم کی نگرانی میں کام کرنے والے اسکولوں اور کالجوں میں بھی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی ایک اہم مسئلہ بن گئی ہے۔ حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن HEC گرانٹ کم کر دی۔ایچ ای سی نے پبلک سیکٹر یونیورسٹی کی گرانٹ میں مزید کمی کر دی، یوں صرف وفاق کے زیرِ انتظام یونیورسٹیاں نہیں بلکہ صوبائی یونیورسٹیوں کی گرانٹ کی کمی ہے۔ 
عمارتوں کی مرمت، عمارت کی تعمیر اور ریسرچ کے لیے رقوم موجود نہیں ہیں۔ وفاقی اردو یونیورسٹی تنخواہوں کی ادائیگی اور ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن اور گریجویٹی دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ خیبر پختون خوا کی یونیورسٹیوں میں اساتذہ تنخواہوں کے لیے سڑکوں پر احتجاج پر مجبور ہیں۔ یہی صورتحال بلوچستان اور سندھ کی یونیورسٹیوں میں ہے۔ خیبر پختون خوا کی حکومت کا مالیاتی بحران اتنا بڑھ گیا ہے کہ حکومت تنخواہوں اور پنشنوں میں کٹوتی پر غور کر رہی ہے۔ غیر ملکی زرمبادلہ میں کمی کی بناء پر برآمدات اور درآمدات سست روی کا شکار ہوتی ہیں۔ زرمبادلہ کا بحران ہی ادویات کی قلت کا باعث ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مارکیٹ میں جان بچانے والی ادویات موجود ہی نہیں اور جو ادویات موجود ہیں ان کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ ایک کیمسٹ کا کہنا ہے کہ جب کراچی میں ہی انسولین دستیاب نہیں ہے تو باقی شہروں میں کیا صورتحال ہو گی۔ خون ٹیسٹ کرنے والی لیباریٹریوں کے افسران کہتے ہیں کہ پیچیدہ ٹیسٹوں میں استعمال ہونے والی کٹ اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ ہر ٹیسٹ کے شرح بڑھ گئے ہیں۔ یہی صورتحال ڈائیلاسز میں استعمال ہونے والے کیمیکل کی ہے۔ یہ بدحالی تو ایک طرف سے دوسری طرف امداد دینے والے مالیاتی ادارہ کے رویے میں سختی کی ایک وجہ ریاستی و سرکاری اداروں کے افسران اوراہلکاروں کی عیاشیاں ہیں۔
عالمی مالیاتی اداروں عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے افسران کا خاصے عرصہ سے یہ بیانیہ ہے کہ ریاستی انفرا اسٹرکچر کم کیا جائے۔ ریاستی ٹیکس امیروں اور بالادست طبقات پر لگائے جائیں۔ غریبوں کو ہر ممکن رعایت دی جائے۔ پاکستان کی معاشی صورتحال اتنی خراب ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے دوست ممالک سے امداد لینے کے لیے گارنٹی طلب کی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے آئی ایم ایف کے اس رویے کو ریاست کی خود مختاری کے خلاف قرار دیا ہے۔ رضا ربانی کا یہ بیانیہ ہے کہ آئی ایم ایف کے اسٹاف کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خود مختار ریاستوں کے درمیان وعدوں کی جانچ پڑتال کرے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ صورتحال انتہائی افسوس ناک ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ ایسا سلوک کر رہا ہے جس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا مگر بقول ایک معاشیات کے ماہر کے آئی ایم ایف کے رویے کی مذمت کرنے سے زیادہ ریاستی پالیسیوں پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ اس طرح کے حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاستی اداروں کی بنیادی ترجیح معاشی بحران کا خاتمہ نہیں ہے۔ ان ناجائز مراعات کا تعلق ایک ایسے ملک سے ہے جس کو غیر ملکی زرمبادلہ کے لیے اپنے اداروں کا وقار داؤ پر لگانا پڑ رہا ہے اور ریاست کی خود مختاری پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ وہاں اشرافیہ کو خصوصی ادائیگی تمام دعوؤں کی نفی کرتی ہے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistanpress · 6 months
Text
ریاست کا سیاسی اور معاشی بحران
Tumblr media
ریاست اوراس سے جڑے سیاسی، انتظامی، قانونی اور معاشی بحران کو سمجھنے کے لیے بنیادی نقطہ یہ ہے کہ یہاں ریاست اور حکومت کی حکمرانی کا نظام ’’ اقتدار کے حصول کی سیاست ‘‘ سے جڑا ہوا ہے۔ اقتدار کا حصول ایک فطری نظام ہے لیکن اگر اقتدار کی سیاست میں سے عوام کو عملی طور پر نکال دیا جائے تو ایسی حکمرانی یا ریاستی نظام اپنی ساکھ سمیت افادیت کے عمل کو بھی کھو دیتا ہے یہ ہی حقیقت ہے کہ ایک طرف ہماری سیاسی قیادت کا مرکزی نقطہ اقتدار کی سیاست ہے تو دوسری طرف غیر سیاسی قوتیں بھی ’’ طاقت کی حکمرانی ‘‘ کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور اسی کشمکش کا کھیل ’’ عوامی مفادات پر مبنی حکمرانی ‘‘ کے نظام کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے یا طاقت کی حکمرانی کے نظام میں عوامی مفادات کی ترجیحات کا عمل بہت پیچھے چلا جاتا ہے۔ دنیا میں ریاستی یا حکمرانی کے نظام کی کنجی عوام یا ریاستی سطح پر عوام سے کیے گئے وعدوں, معاہدوں پر مبنی ہوتی ہے۔ لیکن ہماری سیاست میں عوام کی حیثیت محض ایک بڑے سیاسی تماشائی کے اور کچھ بھی نہیں اور لوگوں کو نہ صرف سیاسی اور معاشی معاملات کی سطح پر اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ مجموعی حکمرانی کے نظام میں ان کی شمولیت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
یہاں تک کہ جمہوری معاشروں میں عوامی حکمرانی کے لیے عوام کو ووٹ کی مدد سے حکمرانی کے نظام میں اپنی مرضی اور منشا کے مطابق قیادت کا انتخاب کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ مگر ہماری سیاسی تاریخ ہو یا انتخابی تاریخ ہمیں یہ ہی سبق دیتی ہے کہ یہاں حکمرانی کا نظام جو بذریعہ عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر سامنے آتی ہے، یہ مکمل سچ نہیں۔ کیونکہ عوام کے ووٹوں کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتوں کی اپنی مرضی، منشا اور خواہشات سمیت کسی کی حمایت یا مخالفت کی بنا پر انتخابی نظام پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں یہ پیغام واضح ہے کہ ہمیں عوام کو اپنی سیاسی طاقت بنانے کے بجائے اصل توجہ پس پردہ طاقتوں کے ساتھ اپنے سیاسی تعلقات کی بہتری پر لگانے چاہیے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات عوام کی حمایت کے بجائے پس پردہ قوتوں کی حمایت سے جڑی ہوئی ہے۔ اگرچہ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کا بنیادی نقطہ عوامی مفادات ہی ہوتے ہیں اور اسی نقطہ کو بنیاد پر عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر عملی طور پر ہمارا مجموعی ریاستی، سیاسی یا حکومتی نظام بڑے طاقتور طبقات کے گرد گھومتا ہے اور ان ہی کے مفادات کو ہی بالادستی حاصل ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج کا ریاستی و حکومتی نظام اور عوام میں ایک بڑی سیاسی , سماجی اور معاشی خلیج واضح نظر آرہی ہے۔
Tumblr media
لوگوں کو اپنے ہی ریاستی و حکومتی نظام پر اعتماد کا عمل کمزور ہورہا ہے۔ ایک طرف عوامی مفادات پر مبنی کمزور حکمرانی کا نظام اور دوسری طرف ریاستی یا سیاست کے عمل میں سیاسی فریقین کے درمیان محاذ آرائی ، ٹکراؤ ، نفرت، تشدد، تعصب او ر ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کا عمل ہمارے مجموعی ریاستی عمل یا نظام کو کمزور کررہا ہے۔ یہ جو طبقاتی حکمرانی کا نظام ہے جہاں طاقتور اور کمزور افراد یا محروم طبقات کے درمیان مختلف اور تضادات پر مبنی پالیسیاں ہیں وہی معاشرے میں ایک بڑے انتشار کا سبب بن رہی ہیں۔ ریاستی یا حکومتی بحران کا پیدا ہونا ایک مسئلہ مگر اس بحران کو حل کرنے کے بجائے اس میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنا دوسرا مسئلہ اور عوامی حکمرانی کے بجائے طاقتور افراد یا اداروں کے درمیان حکمرانی کے نظام کے تانے بانے تیسرا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ریاستوں میں مسائل کا پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے مگر اگر ہم اپنی سیاست اور سیاسی یا ریاستی فیصلوں کو بنیاد بنا کر ان مسائل کو حل نہیں کریں گے تو کیونکر لوگوں کا ریاستی یا حکومتی نظام پر اعتماد بحال ہو گا۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ ’’ طاقت کی لڑائی‘‘ میں جو بھی سیاسی یا غیرسیاسی فریق شامل ہیں سب کو ہی طاقت کی حکمرانی کا نشہ ہی سوار ہوا ہے اور ہمیں عوامی مسائل یا اس سے جڑے مشکلات پر کوئی نہ تو حیرانگی ہے اور نہ ہی اس کو حل کرنے کے حوالے سے ہماری کوئی عملی کمٹمنٹ نظر آتی ہے۔
سیاسی جماعتیں بالخصوص جو اقتدار میں شامل ہوتی ہیں ان کے پاس دو ہی نقطہ ہوتے ہیں اول عوامی مسائل کا درست ادراک اور اس پر ٹھوس منصوبہ بندی اور دوئم ان مسائل کے حل میں ان کا روڈ میپ اور عملدرآمد کا موثر نظام ہوتا ہے۔ آپ کسی بھی سطح پر عملا سیاسی جماعتوں کے منشور اور پالیسیوں کو دیکھ لیں تو اس میں عوامی مسائل کی جھلک کم یا عملی منصوبہ بندی اور وسائل کی درست تقسیم کا عمل بھی کمزور نظر آتا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے خود کو اس حد تک کمزور کر لیا ہے کہ ان کی سیاسی حیثیت بھی متاثر ہوئی ہے اور سیاسی جماعتوں کا داخلی نظام کی کمزوری ان کو اور زیادہ سیاسی تنہائی میں مبتلا کررہی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جو علمی و فکری کام ہونا چاہیے تھا اس کا واضح اور گہرا فقدان ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم سیاسی جماعتوں کے بانجھ پن کی طرف بڑھ رہے ہیں جو مسائل کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ بنتے جارہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ وہ ایک کمزور وکٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ان کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتیں تواتر کے ساتھ طاقتور ہوتی جارہی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت ہی ایک متبادل نظام پیش کرتی ہیں اور جمہوری معاشروں میں سیاسی جماعتوں کی اپنی اہمیت بھی ہوتی ہے اور لوگ ان پر بھروسہ بھی کرتے ہیں۔
لیکن جو آج ہماری سیاسی جماعتوں کا انداز سیاست ہے اس میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں درکار ہیں۔ کیونکہ موجودہ سیاسی جماعتوں کا نظام خود ایک مثبت اور بڑی تبدیلی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور اس میں بنیادی نوعیت کی تبدیلوں کے بغیر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش نہیں کیا جاسکے گا۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا اسٹیبلیشمنٹ ، سب کو ہی سرجوڑ کر بیٹھنا ہو گا اور مسئلہ کا حل تلاش کرنا ہو گا۔ کیونکہ جس انداز میں ریاستی عمل کمزوری کی جانب بڑھ رہا ہے وہ تشویش کا پہلو ہے اور ہمیں ریڈ لائن کی طرف لے کر جارہا ہے۔ سیاسی، سماجی، قانونی اور انتظامی سمیت معاشی بحران اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی محرومی اور استحصا ل کی سیاست یا حکمرانی عوام کو مزید تنہا کررہی ہے۔ یہ عملا مشکل حالات ہیں اور غیر معمولی بھی اور اس کا علاج بھی غیر معمولی ہی ہونا چاہیے۔ یہ جو ہمارے شاندار الفاظ ہیں یا جذباتیت پر مبنی نعرے یا خوش نما دعووں کی سیاست ہو یا سب کچھ مثبت طور پر بدلنے کی لگن، شوق اور جنون ہو جب تک عوام ان معاملات کو حقیقی معنوں میں تبدیل یا بہتر حالات کی صورت میں نہیں دیکھیں گے تو کچھ نہیں بدلے گا۔ کاش ہمارا ریاستی اور حکومتی نظام عام آدمی یا محروم طبقات کی کمزور آوازوں کو سن سکتا اور ان کے کانوں میں عام آدمی کی صدائیں گونجتی کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں یا ان کی سیاسی اور معاشی توقعات کیا ہیں۔
ہمارے ریاستی یا حکومتی نظام کو گونگے یا بہرے پن سے باہر نکلنا ہو گا۔ کھلی آنکھوں سے اور لوگوں کی آوازوں سے جائزہ لینا ہو گا کہ لوگ حقیقی معنوں میں کہاں کھڑے ہیں اور کیونکر ان میں مایوسی یا لاتعلقی کا عمل بڑھ رہا ہے۔ آمدنی اور آخراجات میں بڑھتے ہوئے عدم توازن اور دیگر سیاسی و معاشی یا قانونی نا ہمواریوں نے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں کم اور مشکلات زیادہ کھڑی کردی ہیں یہ جو ہم سیاسی , سماجی محاذ پر اسلامی , جمہوری اور فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا یا ہمیں یہ خواب دکھایا گیا تھا اس کی تکمیل, تعبیر کیسے ممکن ہو گی اور کیسے عوام یا لوگوں کا اجتماعی شعور اس بات کو تسلیم کرے گا کہ ہمارا ریاستی و حکومتی نظام کمزور آدمی کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس کے لیے ہمیں ہر سطح پر بڑی تبدیلیاں درکار ہیں۔ یہ تبدیلیاں سخت گیر بھی ہونگی اور کڑوی بھی لیکن اس کڑوے پن کو ہضم کرنا ہو گا۔ طاقتور لوگوں کو حکمرانی کے نظام میں جوابدہ بنانا اور ان کے مقابلے میں کمزور افراد کو طاقتور بنانا ہی ہماری ریاستی و حکومتی ترجیحات کا بنیادی نقطہ ہونا چاہیے۔ لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہو گا جب ہم طاقت کی حکمرانی کے نشے سے باہر نکل کر عوامی خدمت یا عوام کی حالت بدلنے کی حکمرانی کو اپنی بڑی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنالیں۔ لیکن اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہمارا حکمرانی کا نظام لوگوں میں مزید تکالیف پیدا کرے گا اور یہ پہلے سے موجود بداعتمادی کے ماحول میں اور زیادہ بداعتمادی پیدا کرے گا جو ریاستی نظام کی مزید کمزوری کا سبب بنے گا۔
سلمان عابد  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
asrarblog · 6 months
Text
Global Economics Intelligence Executive Summary October 2023 – Asrar Qureshi’s Blog Post #881
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistantime · 7 months
Text
کون کس سے فریاد کرے
Tumblr media
پاکستانی سماج میں جو دکھ اور تکالیف کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ غریب طبقہ ہو یا مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس، دیہی یا شہری افراد، کاروباری یا ملازم پیشہ افراد یا نئی نسل کی آوازیں ہوں ہمیں ان کا مشترکہ دکھ معاشی تکالیف کی شکل میں دیکھنے اور سننے کا موقع مل رہا ہے۔ گھر گھر کی کہانی معاشی بدحالی کے مختلف مناظر کے ساتھ لوگ بیان کرتے ہیں او ریہ سناتے وقت ان پر جو بے بسی یا مایوسی غالب ہے وہ بھی توجہ طلب مسئلہ ہے۔ آمدنی اور اخراجات کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج یا عدم توازن نے پورے سماج کی سطح پر گہری معاشی تقسیم پیدا کر دی ہے۔ بجلی، گیس، پٹرول، ڈیزل، چینی، آٹا، دالیں، گھی، گوشت، ادویات، تعلیم اور صحت کے اخراجات سمیت دیگر بنیادی ضرورتوں پر جو ضرب کاری لگی ہے اس پر سب ہی سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ لوگوں کی کہانیاں سنیں تو اپنی کہانی کا دکھ پیچھے رہ جاتا ہے۔ یقین کریں لوگوں نے اپنے گھروں کی قیمتی اشیا کو بیچ کر بجلی کے بلوں کی آدائیگی کی ہے۔ ٹیکسوں کے ظالمانہ نظام اور ریاستی وحکومتی سطح سے عام لوگوں سے جبری بنیادوں پر ٹیکسوں کی وصولی کے پورا نظام نے ہی لوگوں کو عملی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ طاقتور طبقات کو نظرانداز کر کے یا ان کو سیاسی و معاشی ریلیف دے کر عام آدمی کی زندگی میں مسائل بڑھائے جارہے ہیں۔
سفید پوش طبقہ یا ملازم پیشہ افراد کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنا دکھ کسی کو بیان کرنے کے لیے بھی تیار نہیں اور کوئی ایسا ریاستی , حکومتی یا ادارہ جاتی نظام موجود نہیں جو ان کی آوازوں کو بھی سن سکے یا ان کی شفافیت کی بنیاد پر داد رسی کر سکے۔ یہ ہی المیہ کی کہانی ہے جو آج پاکستان کی سیاست پر غالب ہے۔ آپ کسی بھی علمی یا فکری مجلس کا حصہ ہوں یا سیاسی مباحثوں کا یا کاروباری طبقات یا نوکری پیشہ افراد یا مزدود کہیں بھی بیٹھ جائیں تو دکھوں کی ایک لمبی کہانی سننے کو ملتی ہے۔ اس کہانی میں حکمرانی کے ظالمانہ نظام سے لے کر حکمران طبقات کی شاہانہ زندگی کے معاملات اور عام آدمی کو جو تکالیف ہیں سب کچھ سننے کو ملتا ہے۔ جس کی بھی کہانی ہو گی اس کا ایک ولن بھی ہو گا اور ہر فریق کا ولن ایک دوسرے سے مختلف ہے لیکن ان سب میں ایک مشترکہ دکھ حکمرانی کا بدترین نظام اور معاشی استحصال ہے۔ آپ لوگوں کے سامنے مستقبل کا نقشہ کھینچیں اور ان کو بتائیں کے حالات درست ہونے والے ہیں یا آپ امید رکھیں تو وہ مزید کڑوا ہو جاتا ہے اور اس میں مزید غصہ اور انتقام کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اس طرح کی جذباتیت پر مبنی کہانیاں کے حالات درست ہونے والے ہیں سن سن کر خود ہمت ہار بیٹھا ہے۔
Tumblr media
حکومتی نظام برے طریقے سے اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے اور لوگوں کو اب اس نظام پر اعتماد نہیں رہا۔ یہ واقعی ایک بڑا المیہ ہے جو اس وقت ریاستی سطح پر ہمیں درپیش ہے۔ مسئلہ محض ماتم کرنا , دکھ بیان کرنا یا کسی کو بھی گالیاں دینا نہیں اور نہ ہی یہ مسائل کا حل ہے لیکن سوال یہ ہے طاقت ور طبقہ یا فیصلہ ساز قوتیں کیونکر لوگوں کی آوازوں کے ساتھ اپنی آواز نہیں ملا رہی اور کیوں لوگوں کے بنیادی نوعیت کے معالات کے حل کے بجائے اس سے فرار کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے۔ ارباب اختیار میں یہ سوچ کیونکر غالب نہیں ہو رہی کہ ریاستی یا حکومتی نظام موجودہ طریقوں یا حکمت عملی یا عملدرآمد کے نظام سے نہیں چل سکے گا۔ ایسے لگتا ہے کہ ہمارا ریاستی و حکومتی نظام عملاً گونگا اور بہرہ ہو گیا ہے اور لوگوں کے دکھ اور آوازوں کو سننے کی صلاحیت سے محروم ہوتا جارہا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لوگوں اور حکمران طبقات کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے اور لوگ حکمران طاقتور طبقات کو اپنے مسائل کی جڑ سمجھ رہے ہیں۔ سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ سیاسی نظام , سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادت اور سیاسی کارکن سب ہی غیر اہم ہوتے جارہے ہیں۔ جن سیاسی افراد نے ملک کے سیاسی نظام کی باگ ڈور کی قیادت کرنا تھی وہ کہیں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ 
لوگوں کو ایک ایسے ظالمانہ ادارہ جاتی نظام میں جکڑ دیا گیا ہے کہ لوگ خود کو ہی غیر اہم سمجھنے لگ گئے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ ہم وہ طبقہ نہیں جن کے لیے یہ ملک بنایا گیا تھا بلکہ یہ ملک ایک خاص طبقہ کے مفادات کی تقویت کے لیے بنایا گیا اور ہم اس میں محض تماشائی کی حیثیت سے موجود ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر کئی سیاسی افراد جو قومی اور صوبائی اسمبلیو ں کے سابق ارکان ہیں اور جنھوں نے آنے والے انتخابات میں حصہ لینا ہے سے ملنے کا موقع ملا ہے۔ ان کے بقول ہمیں یہ ہی سمجھ نہیں آرہی کہ اگر انتخابات ہونے ہیں تو ہم عوام کا سامنا کیسے کریں گے اور کیوں لوگ ہمیں ان حالات میں ووٹ دیں گے۔ کیونکہ ہم نے اپنے سیاسی حکمرانی کے نظام میں کچھ ایسا نہیں کیا کہ لوگ ہمارے ساتھ کھڑے ہو سکیں۔ اب سوال یہ ہے کہ لوگ کدھر جائیں اور کس سے فریاد کریں کیونکہ ان کی سننے والا کوئی نہیں۔ یہ تو شکر کریں کہ ان بدترین معاشی حالات میں ایسے خدا ترس لوگ یا خوشحال لو گ موجود ہیں جو اپنے اردگرد لوگوں کی خاموشی کے ساتھ مدد کر رہے ہیں ۔
میں کئی لوگوں کو انفرادی سطح پر جانتا ہوں جو بغیر کسی شور شرابے کے اپنے اردگرد ہمسائیوں یا رشتہ داروں یا دوست احباب کی مدد میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان خد ا ترس افراد کے مقابلے میں ریاستی اور حکومتی نظام کدھر ہے اور کیونکر لوگوں کے ساتھ لاتعلق ہوتا جارہا ہے ریاست اور حکومت کا جوابدہ ہونا , ذمے داری کا احساس ہونا , لوگوں کو ریلیف دینا اور ان کی زندگیوں میں خوشیا ں لانا ہی ریاستی نظام کی ساکھ کو قائم کرتا ہے۔ لوگوں کو اب طاقتور طبقات کی جانب سے امید نہیں چاہیے بلکہ وہ عملی بنیادوں پر اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ بھی فوری طور پر ایسے اقدامات جو ان کی زندگیوں میں کچھ مثبت نمایاں تبدیلیاں لا سکے۔ موجودہ حالات میں مڈل کلاس یا درمیانی درجے کی کلاس کو ہم نے واقعی مفلوج کر دیا ہے اور ان کو اپنے رہن سہن میں مختلف نوعیت کے معاشی سمجھوتے کرنے پڑرہے ہیں۔ ان حالات کے ذمے دار وہی ہیں جن کو حکمرانی کرنے کا حق ملا، اختیارات ملے، وسائل ملے اور لوگ ان ہی کو جوابدہ بنانا چاہتے ہیں۔
جنگ وہ نہیں جو اسلحہ کی بنیاد پر کسی دشمن ملک سے لڑی جائے، ایک جنگ پاکستان کے لوگ پاکستان کے اندر حکمرانی کے نظام سے لڑ رہے ہیں اور اس جنگ نے لوگوں کو سیاسی طور پر تنہا کر دیا ہے یا اس ریاستی نظام سے لاتعلق بھی۔ اس جنگ کا دشمن ظالمانہ حکمرانی کا نظام ہے اور اس میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو عوام دشمنی کو بنیاد بنا کر اپنے لیے وسائل کو سمیٹ رہے ہیں۔ یہ جنگ عملاً ریاستی نظام کمزور کر رہی ہے اور لوگو ں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اس ملک کو چھوڑ کر کسی اور دنیا میں اپنی منزل تلاش کریں۔ ہمیں اگر واقعی ملک میں سول نافرمانی سے بچنا ہے یا ملک کو ایک بڑی ہیجانی یا انتشار یا ٹکراو کی سیاست سے باہر نکالنا ہے تو ہمیں بہت کچھ نیا کرنا ہو گا۔ غیرمعمولی اقدامات ہماری بنیادی نوعیت کی ترجیحات ہونی چاہیے اور ایسی ترجیحات جس میں طاقتور طبقات کو قانون کے شکنجے میں لایا جائے اور عام آدمی کے مقدمہ کو زیادہ فوقیت دی جائے لیکن سوال یہ ہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اور کون لوگوں کے دکھوں میں خود کو ایک بڑے سہارے کے طور پر پیش کریگا کیونکہ ریاستی اور حکومتی نظام آسانی سے تبدیل نہیں ہوتا اور نہ ہی طاقتور طبقہ اسے آسانی سے بدلنے کی اجازت دیتا ہے۔
یہ ایک سیاسی جدوجہد کی کہانی ہے جہاں ہمیں ریاستی یا حکومتی نظام پر ایک بڑے دباؤ کی سیاست پیدا کرنا ہوتی ہے۔ یہ کام سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت کرتی ہیں لیکن وہ تو سیاسی بانجھ پن کا شکار ہیں اور ان کے مفادات عوامی مفادات کے برعکس نظر آتے ہیں۔ ایسے میں لوگ کدھر جائیں گے، ڈر ہے کہ لوگوں میں موجود غصہ ایک بڑے انتقام کی سیاست کی صورت میں آج نہیں تو کل سامنے آئے گا۔ سیاسی نظام کی قیادت سے لاتعلق عوامی ردعمل کسی بھی صورت میں ریاستی مفاد میں نہیں ہوتا کیونکہ یہ عمل حالات کو اور زیادہ خراب کرتا ہے۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہم ہوش سنبھالیں اور خود کو عوام کے ساتھ جوڑیں یہ ہی حکمت عملی ہمیں کچھ بہتری کا راستہ دے سکتی ہے۔
سلمان عابد  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
munaeem · 9 months
Text
Is Pakistan nearing end?
Pakistan, a country rich in history and culture, has faced its fair share of challenges over the years. However, there has been speculation and concerns lately about the future of this South Asian nation. Some argue that Pakistan is nearing its end, while others vehemently disagree. Tension have always been part of Pakistan’s internal and external dynamics. From political instability to economic…
View On WordPress
0 notes
digitallybuland · 10 months
Text
0 notes
pakistanpolitics · 1 year
Text
ہمیں اپنی سوچ بدلنا ہو گی
Tumblr media
قارئین آج ایک ایسے ملک کے آرمی چیف کا ذکر کررہا ہوں جس نے اپنے ملک میں مثال قائم کر دی۔ پولینڈ کے سابق آرمی چیف آج کل بے گھر ہیں ریٹائرمنٹ کے بعد چند سال کرائے کے گھر میں زندگی بسر کی، اب کرایہ ادا کرنے کے پیسے نہیں ایک گارڈن میں خیمہ لگا لیا جب حکومت وقت کو خبر پہنچی تو وزیر اطلاعات نے سرکاری اعلان جاری کیا اگر کوئی شہری سابق آرمی چیف کی کفالت کرنا چاہتا ہے تو رابطہ کر سکتا ہے۔ ہال میں بیٹھے رائٹر نے حیرانی سے پوچھا اس نے وطن کیلئے قربانیاں دیں تو کیا حکومت وقت اس کی کفالت نہیں کر سکتی ؟ حکومت کر سکتی ہے لیکن ریٹائرڈ آرمی چیف کہتے ہیں میں حکومت کی کوئی امداد نہیں لینا چاہتا تاکہ نئی جنریشن کو میرے بارے میں ابہام پیدا نہیں ہو کہ سابق چیف ریٹائرمنٹ کے بعد عوام کی ٹیکس منی سے خرچہ لیتا تھا، یہ ان ملکوں کی ترقی کا راز ہے۔ اب میں اپنے ملک پاکستان کی طرف آتا ہوں۔ اس وقت دنیا میں 207 کے لگ بھگ ممالک ہیں ان میں سے ایک ملک ایسا بھی ہے جو روس سے کم از کم 10 گنا چھوٹا ہے لیکن اس کا نہری نظام روس کے نہری نظام سے 3 گنا بڑا ہے۔ یہ ملک دنیا میں مٹر کی پیدا وار کے لحاظ سے دوسرے خوبانی، کپاس اور گنے کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھے پیاز اور دودھ کی پروڈکشن کے لحاظ سے 5ویں، کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے چھٹے، آم کی پیداوار کے لحاظ سے ساتویں، چاول کی پیداوار کے لحاظ سے آٹھویں، گندم کی پیداوار کے لحاظ سے نویں اور مالٹے ، کینو کی پیداوار کے لحاظ سے دسویں نمبر پر ہے۔ دوستو یہ ملک مجموعی زرعی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں پچیس ویں نمبر پر ہے۔ اس کی صرف گندم کی پیداوار پورے براعظم جنوبی افریقہ کی پیداوار سے زیادہ اور براعظم جنوبی امریکہ کی پیداوار کے تقریباََ برابر ہے۔
یہ ملک دنیا میں صنعتی پیداوار کے لحاظ سے 55ویں، کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے چوتھے اور تانبے کے ذخائر کے اعتبار سے ساتویں نمبرپر ہے۔ سی این جی کی بات کریں ہم تو سی این جی کے استعمال میں پہلے نمبر پر ہیں اس ملک کے گیس کے ذخائر ایشیا میں چھٹے نمبر پر ہیں اور یہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے۔جس کا نام پاکستان ہے۔ جس کے 4 صوبے ہیں اور 2 سمندر ہیں۔ ہر صوبہ اپنی جگہ قدرتی دولت سے مالا مال ہے، کون سی سبزی، کون سا اناج ہے جو ہمارے ملک میں پیدا نہیں ہوتا، یعنی فار ایسٹ ، خلیج اور یورپ میں کوئی ایک ملک تمام اناج نہیں پیدا کر سکتا۔ یعنی اگر چاول پیدا کر رہا ہے تو گیہوں پیدا نہیں کر سکتا جو گیہوں پیدا کر رہا ہے وہ مکئی ، جوار نہیں پیدا کر سکتا۔ جو مکئی پیدا کر رہا ہے وہ دالیں پیدا نہیں کر سکتا ۔ یہی حال سبزیوں اور پھلوں کا ہے، مگر ہمارا ملک خدا کے فضل سے ہر پھل تمام سبزیاں اور اناج پیدا کر رہا ہے ۔ اس ملک کو اللہ تعالیٰ نے قحط سے بھی محفوظ رکھا ہے۔ کیونکہ تمام اناج الگ الگ موسم میں بوئے جاتے ہیں اور الگ الگ موسم میں کاٹے جاتے ہیں۔ لہٰذا اگر ایک فصل خراب ہو تو اس کی جگہ دوسری فصل لے لیتی ہے۔ 
Tumblr media
ہر چیز ہماری ضرورت سے زیادہ پیدا ہو رہی ہے ۔ بلکہ اس کو صحیح طریقے سے محفوظ رکھنے کے طریقۂ کار اور ذرائع دستیاب نہ ہونے کے باعث یہ فاضل پھل، سبزیاں اور اناج سڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے چوتھے صوبے بلوچستان میں قیمتی پتھر ، کوئلہ ، پیٹرول اور گیس کے ذخائر وافر مقدار میں قدرت نے ہمیں دیئے ہیں تاکہ پاکستان کسی بھی ملک کا دستِ نگر نہ ہو۔ بلوچستان کی بندرگاہ خلیجی ملکوں سے رابطہ کے علاوہ سمندری پیداوار میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بہترین جھینگے اور مچھلیاں تو اپنا جواب نہیں رکھتیں۔ اس صوبے میں پیٹرول کے بھاری ذخائر ہیں مگر ہم نے ابھی تک صحیح منصوبہ بندی نہیں کی۔ ہماری اسی سر زمین سے پیٹرول گزر کر ایران جارہا ہے۔ اسی طرح گیس کے بھی ذخائر وافر مقدار میں ہیں مگر ہمیں ان کی قدر نہیں ہے۔ کراچی کی بندرگاہ ، یورپ اور فارایسٹ کے درمیان رابطہ کا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ پورے ملک کیلئے تجارتی گزرگاہ ہے اور پاکستان کی معیشت میں 65 سے 70 فیصد اخراجات کا بوجھ برداشت کرتی ہے۔ 
الغرض اس ملک کی جتنی تعریف کی جائےکم ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ یہ ملک نااہلوں، بے ایمانوں، ملک فروشوں اوربدعنوانوں کی پیداوار میں غالباً پہلے نمبر پر ہے، جہاں میں اور آپ رہتے ہیں، دوستو یہاں کے لوگ کسی نیک، ایماندار اور صالح قیادت کو منتخب کرنے کے بجائے بار بار کرپٹ اور دھوکہ باز سیاستدانوں کو ہی ووٹ ڈالتے ہیں۔ یہاں گزشتہ 40 سال سے مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن لوگ بھوکے رہ کر بھی انہی کرپٹ خاندانوں، سیاستدانوں اور ان کی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں اس میں میں بھی شامل ہوں، ملک کو تباہ کرنے میں میں بھی برابر کا شریک ہوں۔ اللہ تعالیٰ مجھےاور ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور اہل، دیانتدار قیادت منتخب کرنے کی توفیق دے آمین۔ دوستو یہ میرا پیغام اپنے لئے، میرے ساتھ جڑے لوگوں کیلئے بلکہ پورے پاکستان کیلئے ہے۔ اگر آپ ملک کو بدلنا چاہتے ہیں تو آپ کو پہلے اپنے اندر تبدیلی لانا پڑے گی، اللہ پاک نے ہمیں نعمتوں سے نوازا ہے ہمیں پوری دنیا پر حکمرانی کرنی چاہئے تھی لیکن آج ہم صرف ذلیل و خوار ہو رہے ہیں کس وجہ سے میری وجہ سے اور ہم سب کی وجہ سے، ہمیں اپنی سوچ بدلنا ہو گی اور اگرہم سوچ بدلیں گے تو ہم ایماندار اور صالح قیادت منتخب کر سکیں گے۔ تب جا کر پاکستان کی تقدیر بدلے گی۔
خلیل احمد نینی تا ل والا
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 3 months
Text
شہباز شریف کی کمزور مخلوط حکومت کو کن چیلنجز کا سامنا ہے؟
Tumblr media
نو منتخب وزیراعظم نے اقلیتی حکومت جوکہ مختلف جماعتوں کو ساتھ ملا کر بنائی گئی ہے، کے لیے جرات مندانہ اہداف طے کر لیے ہیں۔ انہوں نے خطرات کے پیش نظر ملکی حالات کو بہتر کرنے کا عزم کیا ہے۔ بطور وزیراعظم شہباز شریف کا پہلا عہد ختم ہونے کے چند ماہ بعد ہی وہ دوسری بار برسرِاقتدار آئے ہیں۔ تاہم اس بار کمزور حکومتی اتحاد کو درپیش مسائل اور چیلنجز پہلے کی نسبت زیادہ تشویشناک ہیں۔ ان کے پہلے دورِ حکومت میں کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا اور ان کی نئی حکومت کو بھی متوقع طور پر پیچیدہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 8 فروری کے عام انتخابات کی قانونی ساکھ پر اٹھنے والے سوالات، نئی حکومت کے لیے اچھا آغاز نہیں ہیں۔ وزیراعظم کے انتخاب کے بعد قومی اسمبلی کے فلور پر جو ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی، وہ ملک میں بگڑتے ہوئی سیاسی تقسیم کی نشاندہی کرتی ہے۔ اسی تقسیم کی وجہ سے سیاسی استحکام حاصل کرنا مشکل ہو رہا ہے جو اس وقت ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ موجودہ ماحول میں شہباز شریف کی سیاسی مفاہمت کی کال کا کسی نے مثبت جواب نہیں دیا کیونکہ خواتین سمیت سیکڑوں سیاسی قیدی اب بھی بغیر کسی مقدمے کے جیل میں قید ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اپوزیشن کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ 
الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی ہے جس نے موجودہ سیاسی ماحول میں مزید بگاڑ پیدا کیا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم نے ابھی اپنی کابینہ کا اعلان نہیں کیا لیکن اس کی تشکیل کے حوالے سے قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ وزارتوں پر اتحادیوں کے ساتھ اب بھی کچھ مسائل ہیں جو حل طلب ہیں جبکہ شہباز شریف کے لیے تمام چھ  اتحادی جماعتوں کو بیک وقت خوش رکھنا مشکل ہو گا۔ اس کے علاوہ متوقع طور پر اس مشکل وقت میں پرانے چہروں کی اقتدار میں واپسی سے زیادہ امید نہیں کہ حکومت ڈیلیور کر پائے گی۔ بلاشبہ اصل فیصلہ بڑے بھائی نواز شریف کے اختیار میں ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف کی اپنی ترجیحات ہیں۔ تاہم سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ملکی معیشت کون چلائے گا؟ اگرچہ ’معاشی گرو‘ کے طور پر اسحٰق ڈار کی واپسی کے امکانات کم ہیں لیکن انہیں مکمل طور پر اس دوڑ سے باہر تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بطور وزیرِخزانہ ان کی واپسی ملک کے معاشی مستقبل کے لیے بری خبر ہو گی۔ تاہم وزارتِ خزانہ کی کرسی کے لیے ان کے علاوہ دیگر ناموں پر بھی غور کیا جارہا ہے۔
Tumblr media
البتہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا حکومت سخت فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور ایسے فیصلے کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ ساختی اصلاحات پر کام شروع کیا جا سکے۔ نئی انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج طویل عرصے سے زیرِ التوا ریاستی اداروں کی نجکاری کا عمل شروع کرنا ہو گا۔ یہ ادارے معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو اس حوالے سے سخت تحفظات ہیں مگر اس معاملے پر دیگر اتحادی جماعتوں کا واضح مؤقف سامنے نہیں آیا۔ نجکاری کا معاملہ ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے اور اکثریت سے محروم کمزور حکومت جس کی بقا مکمل طور پر اتحادی جماعتوں پر منحصر ہے، ایسی حکومت کے لیے پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز سمیت دیگر ریاستی اداروں کو فروخت کرنے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں ہو گا۔ یہ واضح رہے کہ ان اداروں سے سرکاری خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ تاہم اقتصادی پہلو کے حوالے سے ایک اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ نئی حکومت قرضوں کی بدترین صورتحال سے کیسے نمٹتی ہے۔
 قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں وزیراعظم شہباز شریف نے افسوس کا اظہار کیا کہ پوری وفاقی حکومت کے اخراجات قرضے کی رقم سے پورے کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں کو فنڈز کی منتقلی کے بعد وفاقی حکومت کے پاس بہت کم رقم رہ جاتی ہے۔ یہ یقیناً ملک کی مالی پریشانیوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔ شہباز شریف نے قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ سے نمٹنے کے لیے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ (این ایف سی) پر نظرثانی کا عندیہ دیا ہے۔ لیکن این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کے لیے تمام صوبوں کے اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں اتفاقِ رائے ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔ صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے بالخصوص خیبرپختونخوا جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ موجودہ انتظامات میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کے لیے سیاسی مفاہمت کی ضرورت ہو گی جو موجودہ محاذ آرائی کے ماحول میں ہونے کا امید نہیں۔ شہباز حکومت کے لیے ایک اور بڑا چیلنج آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب ڈالرز کے توسیعی فنڈ کے لیے بات چیت کرنا ہو گا جوکہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
پاکستان نے گزشتہ موسم گرما میں آئی ایم ایف کے قلیل مدتی بیل آؤٹ کی وجہ سے ڈیفالٹ کے خطرے کو ٹال دیا تھا لیکن آئی ایم ایف کا یہ پروگرام جلد ہی ختم ہونے والا ہے۔ چند ہفتوں میں ایک نئے پیکیج کے لیے عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ بات چیت شروع ہونے کی امید ہے۔ آئی ایم ایف نے پہلے ہی اپنی شرائط پیش کر دی ہیں اور حکومت کو کسی بھی نئے معاہدے سے پہلے ان شرائط پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔ ان میں سے کچھ شرائط تو ایسی ہیں جن سے پہلے سے عدم استحکام کا شکار حکومت مزید غیر مقبول اور اس پر شدید سیاسی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ شہباز شریف کی پچھلی حکومت جس میں اسحٰق ڈار وزیرخزانہ تھے، اس حکومت کو آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ البتہ آخری لمحات میں دیے گئے آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کی بدولت ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شہباز شریف نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ خود آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان کی جانب سے سخت فیصلہ سازی کی ضرورت ہے نہ کہ مذاکرات میں ان کی براہِ راست شرکت کی۔ ایسے میں اسحٰق ڈار کی واپسی کا کوئی بھی امکان تباہ کُن ثابت ہوسکتا ہے۔ 
ملک میں سیاسی استحکام کے بغیر معاشی حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ اقتدار میں موجود جماعتوں پر بڑے پیمانے پر انتخابی نتائج میں جوڑ توڑ کے الزامات سے کسی بھی مفاہمت کی کوشش کا کامیاب ہونا ناممکن لگتا ہے۔ اس بگاڑ کو دور کیے بغیر ملک میں سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔ لیکن صرف معیشت نہیں بلکہ داخلی سلامتی سے متعلق مسائل بھی درپیش ہیں جن پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان وسیع تر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے اور اپوزیشن کو آن بورڈ لینے کی ضرورت ہے۔ خیبرپختونخوا میں شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ سیاسی عدم استحکام نے عسکریت پسندوں کو دہشت گردی تیز کرنے کا بھرپور موقع دیا ہے اور وہ سیکیورٹی اہلکاروں اور تنصیبات کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی زیرِقیادت خیبرپختونخوا حکومت اور وفاق کے درمیان کوئی بھی محاذ آرائی ملک کی داخلی سلامتی کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہو گی۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولے بیٹھے ہیں، ایسے میں بہت کم امید ہے کہ ان کے درمیان معاملات ٹھیک ہوں گے۔ ایسی حکومت جس کے مینڈیٹ پر شکوک و شبہات ہوں، ملک میں وہ استحکام نہیں لا سکتی جس سے حالات میں بہتری آسکے۔
زاہد حسین  
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
shiningpakistan · 25 days
Text
معیشت کی بحالی کیلئے آخری موقع
Tumblr media
گزشتہ دنوں میری کراچی اور اسلام آباد میں ملکی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں جن میں زیادہ تر نے معیشت کی بحالی کیلئے سخت اقدامات کئے جانے کو آخری موقع (Lifeline) قرار دیا۔ انکا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس اب وقت نہیں کہ وہ ان اقدامات کو مزید موخر کرسکے۔ میں بھی ان سے اتفاق کرتا ہوں کہ پاکستانی معیشت اب اس ڈگر پر آگئی ہے جہاں ہمیں سیاسی سمجھوتوں کے بجائے ملکی مفاد میں سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ گزشتہ دنوں کراچی میں ملک کے ممتاز صنعتکاروں اور بزنس مینوں کی ایک ’’گریٹ ڈیبیٹ‘‘ اور اسلام آباد میں ’’لیڈرز اِن اسلام آباد بزنس سمٹ‘‘ میں چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین، معاشی ماہرین اور میں نے ملکی معیشت پر اہم تجاویز دیں جس میں معیشت کی بہتری کیلئے اسٹیٹ بینک کے 22 فیصد ڈسکائونٹ ریٹ اور حکومتی اخراجات میں کمی، درآمدات میں اضافہ، ٹیکس نیٹ میں توسیع، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں PIA، واپڈا، ریلویز، ڈسکوز جو 500 ارب روپے سالانہ کا نقصان کر رہے ہیں، کی فوری نجکاری، صنعتی سیکٹر کو مقابلاتی اور سستی توانائی کی فراہمی شامل ہے۔
دوست ممالک بھی اب مالی امداد کے بجائے پاکستان میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے ہیں لیکن اس کیلئے ملک میں امن و امان کی بہتر صورتحال اور سیاسی استحکام اشد ضروری ہے جو موجودہ حالات میں نظر نہیں آرہا۔ بینکوں کی 24 فیصد شرح سود پر کوئی سرمایہ کار نئی صنعت لگانے کو تیار نہیں بلکہ موجودہ صورت حال میں بینکوں کے نجی شعبے کے قرضوں میں 80 فیصد کمی آئی ہے جس سے معاشی گروتھ متاثر ہوئی ہے۔ حکومت کے زیادہ شرح سود پر قرضے لینے کی وجہ سے ہمیں 8500 ارب روپے کے بجٹ خسارے کا سامنا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے ڈسکائونٹ ریٹ میں کمی لاکر ہم بجٹ خسارے میں 2500 ارب روپے کی کمی لاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ معیشت کی دستاویزی سے ہم 3000 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل کر سکتے ہیں۔ صرف رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ریٹیل کے شعبوں میں 2000 ارب روپے کی ٹیکس کی چوری ہے۔ حکومت کو اپنے اخراجات میں کمی اور ریونیو یعنی آمدنی میں اضافہ کرنا ہو گا۔ روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے کے نقصانات ہم بھگت چکے ہیں لہٰذا ہمیں روپے کی قدر اور ڈالر ریٹ کو مارکیٹ میکنزم کے حساب سے طلب اور سپلائی کے مطابق رکھنا ہو گا۔ 
Tumblr media
افراط زر یعنی مہنگائی 17.3 فیصد ہو چکی ہے جو مئی 2023 ء میں 38 فیصد کی بلند ترین شرح تک پہنچ چکی تھی اور اسے بتدریج کم کر کے سنگل ڈیجٹ پر لانا ہو گا تاکہ اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں کمی لائی جاسکے۔ گوکہ آئی ایم ایف کے نئے پروگرام میں رہتے ہوئے ان اقدامات پر عمل کرنا انتہائی مشکل ہے تاہم ان سے آئندہ 2 سال میں ملکی معیشت میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ہمیں اپنے توانائی اور ٹیکس کے شعبوں میں ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات کرنا ہونگی۔ پرانے IPPs معاہدوں کی تجدید ملک میں توانائی کی طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے مقابلاتی آفر (Bidding) پر کی جائے تاکہ بجلی نہ خریدنے کی صورت میں حکومت کو کیپسٹی سرچارج کی ناقابل برداشت ادائیگی نہ کرنا پڑے جس کے باعث پاکستان کے گردشی قرضے بڑھ کر ریکارڈ 5500 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ ہمیں ٹیکس نظام میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔ زراعت کا شعبہ جس کا معیشت میں حصہ 20 فیصد ہے، بمشکل 1.5 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے جبکہ ٹریڈر جس کا ملکی جی ڈی پی میں 18 فیصد حصہ ہے، بمشکل ایک فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے، یہی حال رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا ہے جبکہ صنعتی سیکٹر، جس کا ملکی معیشت میں حصہ 20 فیصد ہے، پر ٹیکسوں کا 65 فیصد بوجھ ہے۔ 
اسی طرح سروس سیکٹر کا جی ڈی پی میں حصہ 60 فیصد ہے لیکن یہ سیکٹر صرف 28 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے لہٰذا ہمیں ملکی معیشت کے ہر سیکٹر سے اس کے حصے کے مطابق ٹیکسوں کی وصولی یقینی بنانا ہو گی جس کیلئے حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنا ہو گی۔ پاکستان کی جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح 9 فیصد ہے جسے بڑھاکر ہمیں خطے کے دیگر ممالک کی طرح 18 فیصد تک لے جانا ہو گا جو آئی ایم ایف کی شرائط میں بھی شامل ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری میں کمی کی وجہ خطے میں سب سے زیادہ توانائی کے نرخ، بینکوں کے شرح سود اور ٹیکس ریٹ ہیں جو سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ مہنگی بجلی اور گیس کے نرخ کی وجہ سے ہماری ایکسپورٹس غیر مقابلاتی ہورہی ہیں لہٰذا حکومت کو سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے ان تینوں رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا۔ پاکستان کے زراعت اور IT سیکٹرز میں بے پناہ پوٹینشل موجود ہے جنہیں فروغ دیکر ہم فوری طور پر ایکسپورٹس میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ ہمیں ایران اور خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور قطر کیساتھ باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہو گا۔ 
مجھے خوشی ہے کہ آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کی 1.1 ارب ڈالر کی آخری قسط پاکستان کو موصول ہو گئی ہے جس نے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کیا ہے۔ حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف سے 6 سے 8 ارب ڈالر کے 3 سال یا زیادہ مدت کے قرض پروگرام کی درخواست کی ہے جس پر مذاکرات کیلئے آئی ایم ایف کا مشن دو ہفتے کے دورے پر پاکستان آئے گا۔ آئی ایم ایف نے پنشن پر ٹیکس کا نفاذ اور پنشن ادائیگی کی مدت میں کمی پر زور دیا ہے۔ اسکے علاوہ حکومت کو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کیلئے بھی سخت فیصلے کرنا ہونگے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کے پاس اب مزید وقت نہیں کہ وہ ملکی معیشت کی بحالی کیلئے ایڈہاک فیصلے کرے۔ حکومت کے پاس یہ آخری موقع ہے کہ وہ مذکورہ اصلاحات پر عملدرآمد کرکے ملک کو معاشی خوشحالی کی راہ پر گامزن کرے۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
feckcops · 1 year
Text
The West is drowning the Global South in debt
“The world economy is already in the midst of a sovereign debt crisis. The United States Conference on Trade and Development (UNCTAD) has warned that the developing world faces a ‘lost decade’ as a result of the debt crisis, estimating that debt servicing alone will cost these states at least $800 billion ...
“Interest rate hikes won’t solve the inflationary crisis in the rich world. They will, however, make it much more expensive for poor countries to finance their debts. The monetary policy currently being pursued in the rich world has been designed to impoverish workers domestically, with the added bonus of impoverishing poor countries globally.
“We have been here before. In the 1980s, when the then Chair of the Federal Reserve, Paul Volker, sent US interest rates through the roof to discipline US workers, it led to dozens of defaults in the global South. The so-called Volker shock laid the foundations for neoliberalism in the US and, conveniently, it also provided the perfect pretext for imposing neoliberal policies on the global South.
“When poor countries were forced to appeal to international financial institutions for emergency lending, they received this assistance in exchange for introducing policies like privatisation, deregulation and tax cuts. The terms of these loans — referred to as structural adjustment programmes — decimated many economies and permanently increased inequality in others.”
0 notes
risingpakistan · 3 months
Text
پاکستانی دوسری بار کیوں ہجرت کر رہے ہیں ؟
Tumblr media
اس برس کے پہلے دو ماہ میں پی آئی اے کے تین فضائی میزبان کینیڈا پہنچ کے غائب ہو گئے۔ ان میں سے دو پچھلے ہفتے ہی ’سلپ‘ ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ برس پی آئی اے کے سات فضائی میزبان پاکستان سے ٹورنٹو کی پرواز پر گئے مگر واپس نہیں لوٹے۔ یہ سلسلہ 2018 کے بعد سے بالخصوص بڑھ گیا ہے۔ پی آئی اے کے اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ جب سے اس ادارے کی نج کاری کا فیصلہ ہوا ہے ہر کوئی مسلسل بے یقینی کے سبب اپنے معاشی مستقبل سے پریشان ہے۔ اگر بس میں ہو تو آدھے ملازم ملک چھوڑ دیں۔ تین ماہ پہلے گیلپ پاکستان کے ایک سروے میں یہ رجہان سامنے آیا کہ 94 فیصد پاکستانی ملک سے جانا چاہتے ہیں۔ 56 فیصد معاشی تنگی کے سبب، 24 فیصد امن و امان اور جان و مال کے خوف سے اور 14 فیصد مستقبل سے مایوس ہو کے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اگر گیلپ سروے کے نتائج کی صحت پر آپ میں سے بہت سوں کو یقین نہ آئے تو آپ خود اپنے اردگرد متوسط اور نیم متوسط خاندانوں کو کرید کر دیکھ لیں۔ ان میں سے کتنے ہر حال میں یہاں رہنا چاہتے یا پھر چاہتے ہیں کہ کم ازکم ان کے بچے کہیں اور اپنا مستقبل ڈھونڈیں ؟
کیا ستم ظریفی ہے کہ 76 برس پہلے جس پیڑھی نے ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی آس میں گھر بار چھوڑا یا نہیں بھی چھوڑا۔ آج اسی پیڑھی کی تیسری اور چوتھی نسل بھی ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جو لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں، اقتصادی و روزگاری بحران یا امن و امان کی ابتری کے باوجود بیرونِ ملک نہیں جا سکتے وہ اندرونِ ملک بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں یا کم ازکم اس بارے میں سوچتے ضرور ہیں۔ سٹیٹ بینک کے اپنے آنکڑوں کے مطابق 2018 تک ترقی کی شرحِ نمو ڈیڑھ فیصد سالانہ تک رہے گی جبکہ آبادی بڑھنے کی رفتار لگ بھگ دو فیصد سالانہ ہے۔ گویا معاشی ترقی کی شرح آبادی بڑھنے کی شرح یعنی دو فیصد کے برابر بھی ہو جائے تب بھی معیشت کی بڑھوتری کی شرح صفر رہے گی۔ اس تناظر میں مجھ جیسوں کو ایسی خبریں سن سن کے کوئی حیرت نہیں کہ اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو کے مطابق پچھلے پانچ برس میں لگ بھگ 28 لاکھ پاکستانی قانونی ذرائع سے بیرونِ ملک چلے گئے۔
Tumblr media
اس تعداد میں وہ لوگ شامل نہیں جو اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو میں رجسٹر ہوئے بغیر ملازمتی یا تعلیمی مقصد کے لیے براہِ راست بیرون ملک چلے گئے اور وہ لاکھوں بھی شامل نہیں جو جان جوکھوں میں ڈال کر غیر قانونی راستوں سے جا رہے ہیں۔ اگر ان سب کو بھی ملا لیا جائے تو پچھلے پانچ برس میں چالیس سے پچاس لاکھ کے درمیان پاکستانیوں نے ملک چھوڑا۔ نقل مکانی کرنے والے صرف متوسط، نیم متوسط یا غریب طبقات ہی نہیں۔ فیصلہ ساز اشرافیہ کو بھی اس ملک کے روشن مستقبل پر یقین نہیں ہے۔ چند برس پہلے عدالتِ عظمی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ہدایت کی کہ ان بیوروکریٹس کی فہرست مرتب کی جائے جن کی دوہری شہریت ہے۔ اس کے بعد کوئی خبر نہ آئی کہ اس ہدایت پر کتنا عمل ہوا۔ البتہ اسلام آباد میں یہ تاثر ہر طبقے میں پایا جاتا ہے کہ بہت کم سیاستدان، حساس و نیم حساس و غیر حساس اداروں کے افسر، جرنیل، جج اور سہولت کار ہیں جن کی دوہری شہریت نہ ہو یا بیرونِ ملک رہائش کا بندوبست، سرمایہ کاری یا بینک اکاؤنٹ نہ ہو یا کم ازکم ان کے اہلِ خانہ بیرونِ ملک مقیم نہ ہوں۔
کئی ’ریٹائرینِ کرام‘ کی تو پنشنیں بھی ڈالرز میں ادا ہوتی ہیں حالانکہ ان کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے اور بہتوں کے پاس تو جتنا اللہ نے دیا اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ اور کروڑوں سے وہ بھی چھن رہا ہے جو اوپر والے نے انھیں دیا ہو گا۔ اور پھر یہی بندوبستی اشرافیہ عوام کو سادگی، اسلامی و مشرقی اقدار، نظریہِ پاکستان، ایمان، اتحاد، یقینِ محکم، قربانی اور اچھے دن آنے والے ہیں کا منجن بھی بیچتی ہے اور ان کا مستقبل بھی بار بار بیچتی ہے۔ میرے ہمسائے ماسٹر برکت علی کے بقول ’انگریز میں کم ازکم اتنی غیرت ضرور تھی کہ ایک بار لوٹ مار کر کے واپس جو گیا تو پھر اپنی شکل نہیں دکھائی‘ ۔ ایسے میں اگر محکوم اپنی زمین چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں تو انھیں کیوں الزام دیں۔ ویسے بھی ان کے پاؤں تلے زمین کھسک ہی رہی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک جو کروڑوں نارسا ہاتھ کسی امیدِ موہوم کے آسرے پر ووٹ دیت�� تھے، اب ان کے پاؤں ووٹ دے رہے ہیں۔
سفر درپیش ہے اک بے مسافت مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نہیں ( جون ایلیا )
صرف گذشتہ برس آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار پاکستانیوں نے بیرونِ ملک نقل مکانی کی۔ یہ تعداد 2015 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ ان میں آٹھ ہزار آٹھ سو انجینیرز، مالیاتی شعبوں سے وابستہ سات ہزار چار سو افراد ، ساڑھے تین ہزار ڈاکٹر اور لگ بھگ ڈیڑھ ہزار اساتذہ، تین لاکھ پندرہ ہزار دیگر ہنرمند، چھیاسی ہزار نیم ہنرمند اور چار لاکھ سے کچھ کم غیر ہنرمند مزدور شامل ہیں۔
 وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes