Tumgik
#ایٹمی پروگرام
faheemkhan882 · 1 year
Text
Tumblr media
چاند پر جانے کی وڈیو جعلی تھی
ایک اخباری کے مطابق :جو کہ امریکہ اور یورپ کے 12 دسمبر کے اخبارات میں چھپی ہے۔ خبر کا لنک بھی دے رہا ہوں۔
http://www.express.co.uk/news/science/626119/MOON-LANDINGS-FAKE-Shock-video-Stanley-Kubrick-admit-historic-event-HOAX-NASA
خبر کا خلاصہ کچھ یوں ہے
ہالی ووڈ کے معروف فلم ڈائریکٹر سٹینلے کبرک نے ایک ویڈیو میں تسلیم کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے چاند پر مشن بھیجنے کا دعویٰ جعلی اور جھوٹ پر مبنی تھا اور میں ہی وہ شخص ہوں جس نے اس جھوٹ کو فلم بند کیا تھا ۔اس رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ایک خفیہ ویڈیو ریلیز کی گئی ہے جس میں ہالی ووڈ کے آنجہانی ہدایتکار سٹینلے کبرک نے تسلیم کیا ہے کہ 1969ء میں چاند پر کوئی مشن نہیں گیا تھا بلکہ انہوں نے اس کی فلم بندی کی تھی۔ ہالی ووڈ کے ہدایتکار کی اس خفیہ ویڈیو کو 15 سال قبل فلم بند کیا گیا تھا۔ ان کی ویڈیو بنانے والے رپورٹر نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس ویڈیو کو ان کی وفات کے 15 سال بعد افشاء کرے گا۔ اس کے چند ہی دن بعد سٹینلے کبرک کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس خفیہ ویڈیو میں انہوں نے تسلیم کیا کہ چاند کی تسخیر پر اٹھائے جانے والے تمام سوالات درست ہیں یہ سب کچھ امریکی خلائی ادارے ناسا اور امریکی حکومت کی ایماء پر کیا گیا تھا۔اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو اس تمام معاملے کا علم تھا۔سٹینلے کبرک کا کہنا تھا کہ وہ امریکی عوام سے معذرت خواہ ہیں کیونکہ انہوں نے ان سے دھوکہ دہی کی ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے امریکی حکومت اور ناسا کے کہنے پر مصنوعی چاند پر فلم بندی کی تھی میں اس فراڈ پر امریکی عوام کے سامنے شرمسار ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو یہ تھا اس وڈیو بنانے والا اصل کریکٹر جو اعتراف کرگیا کہ یہ سب کچھ جعلی تھا۔ اس سے پہلے میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو اس کے بارے میں بتا چکا ہوں کہ اس وڈیو بنانے کی وجوہات اصل میں کیا تھیں۔ اور کچھ اس پر اٹھائے جانے والے اعتراضات بھی بتا چکا ہوں۔ یہ پوسٹ میں دوبارہ آپ کی دلچسپی اور علم میں اضافے کے لئے پیش کررہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند پر انسانی قدم کے ڈرامے کی وجوہات اور اعتراضات
چند دن پہلے میں نے "چاند پر قدم کا ڈرامہ" نامی آرٹیکل اس دلچسپ معلومات پیج پر پوسٹ کیا تھا ۔ جس پر کچھ دوستوں نے اعتراضات کئے تھے کہ "یہ سب بکواس ہے چاند پر قدم ایک حقیقت ہے"۔یا۔"خود تو کچھ کر نہیں سکتے اور دوسروں پر اعتراضات کرتے ہیں"۔ وغیرہ وغیرہ ۔اور بہت سارے دوست تو میری بات سے متفق بھی تھے۔ تو ان معترضین سے عرض یہ ہے کہ چاند پر قدم کا ڈرامہ کہنے والے پاکستان نہیں بلکہ خود امریکی اور یورپ کے ماہرین ہیں۔کیونکہ ہمارے پاس تو اتنی ٹیکنالوجی اور وسائل نہیں کہ ہم حقیقتِ حال جان سکیں۔ جن کے پاس تمام وسائل ہیں ان لوگوں نے ہی اس نظریے پر اعتراضات اٹھائے ہیں کہ یہ ایک باقاعدہ ڈرامہ تھا جو امریکہ اور روس کی سرد جنگ کے درمیان امریکہ نے روس پر برتری حاصل کرنے کے لئے گڑھا تھا۔ آئیے ان اعتراضات پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ذہن میں رہے یہ اعتراضات کوئی پاکستانی نہیں کررہا بلکہ امریکی کررہے ہیں۔جن کو میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کو دوستوں سے شئیر کررہا ہوں۔
1969 میں امریکی خلانورد نیل آرمسٹرانگ نے گرد سے اٹی ہوئی جس سرزمین پر قدم رکھا تھا، کیا وہ چاند کی سطح تھی یا یہ ہالی وڈ کے کسی سٹوڈیو میں تخلیق کیا گیا ایک تصور تھا؟ بہت سے لوگوں کی نظر میں یہ حقیقت آج بھی افسانہ ہے۔کیونکہ کچھ ہی سالوں میں خود امریکہ میں اس بات پر شک و شبہ ظاہر کیا جانے لگا کہ کیا واقعی انسان چاند پر اترا تھا؟
15 فروری 2001 کو Fox TV Network سے نشر ہونے والے ایک ایسے ہی پروگرام کا نام تھا
Conspiracy Theory: Did We Land on the Moon?
اس پروگرام میں بھی ماہرین نے بہت سے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ اسی طرح یوٹیوب پر بھی یہ دو ڈاکیومینٹری دیکھنے والوں کے ذہن میں اس بارے ابہام پیدا کرنے کے لئے کافی موثر ہیں۔
Did man really go to the moon
Did We Ever Land On The Moon
پہلے اس ڈرامے کی وجوہات پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔کہ آخر کیا وجہ تھی کہ امریکہ نے اتنا بڑا(تقریباکامیاب) ڈرامہ بنایا۔
سرد جنگ کے دوران امریکہ کو شدید خطرہ تھا کہ نہ صرف اس کے علاقے روسی ایٹمی ہتھیاروں کی زد میں ہیں بلکہ سرد جنگ کی وجہ سے شروع ہونے والی خلائی دوڑ میں بھی انہیں مات ہونے والی ہے۔ کیونکہ روس کی سپیس ٹیکنالوجی امریکہ سے بہت بہتر تھی۔ جنگ ویتنام میں ناکامی کی وجہ سے امریکیوں کا مورال بہت نچلی سطح تک آ چکا تھا۔
پہلا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجنے کے معاملے میں روس کو سبقت حاصل ہو چکی تھی جب اس نے 4 اکتوبر 1957 کو Sputnik 1 کو کامیابی کے ساتھ زمین کے مدار میں بھیجا۔ روس 1959 میں بغیر انسان والے خلائی جہاز چاند تک پہنچا چکا تھا۔ 12 اپریل 1961 کو روسی خلا نورد یوری گگارین نے 108 منٹ خلا میں زمیں کے گرد چکر کاٹ کر خلا میں جانے والے پہلے انسان کا اعزاز حاصل کیا۔ 23 دن بعد امریکی خلا نورد Alan Shepard خلا میں گیا مگر وہ مدار تک نہیں پہنچ سکا۔ ان حالات میں قوم کا مورال بڑھانے کے لیئے صدر کینڈی نے 25 مئی 1961 میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم اس دہائی میں چاند پر اتر کہ بخیریت واپس آئیں گے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دہائی کے اختتام پر بھی اسے پورا کرنا امریکہ کے لئے ممکن نہ تھا اس لیئے عزت بچانے اور برتری جتانے کے لیئے جھوٹ کا سہارا لینا پڑا۔ امریکہ کے ایک راکٹ ساز ادارے میں کام کرنے والے شخصBill Kaysing کے مطابق اس وقت انسان بردار خلائی جہاز کے چاند سے بہ سلامت واپسی کے امکانات صرف 0.017% تھے۔ اس نے اپولو مشن کے اختتام کے صرف دو سال بعد یعنی 1974 میں ایک کتاب شائع کی جسکا نام تھا
We Never Went to the Moon:
America's Thirty Billion Dollar Swindle
3 اپریل 1966 کو روسی خلائ جہاز Luna 10 نے چاند کے مدار میں مصنوعی سیارہ چھوڑ کر امریکیوں پر مزید برتری ثابت کر دی۔ اب امریکہ کے لئے ناگزیر ہوگیا تھا کہ کچھ بڑا کیا جائے تاکہ ہمارا مورال بلند ہو۔
21 دسمبر 1968 میں NASA نے Apollo 8 کے ذریعے تین خلا نورد چاند کے مدار میں بھیجے جو چاند کی سطح پر نہیں اترے۔ غالباً یہNASA کا پہلا جھوٹ تھا اور جب کسی نے اس پر شک نہیں کیا تو امریکہ نے پوری دنیا کو بے وقوف بناتے ہوئے انسان کے چاند پر اترنے کا یہ ڈرامہ رچایا اورہالی وڈ کے ایک اسٹوڈیو میں جعلی فلمیں بنا کر دنیا کو دکھا دیں۔ اپولو 11 جو 16جولائی 1969 کو روانہ ہوا تھا درحقیقت آٹھ دن زمین کے مدار میں گردش کر کے واپس آ گیا۔
1994 میں Andrew Chaikin کی چھپنے والی ایک کتاب A Man on the Moon میں بتایا گیا ہے کہ ایسا ایک ڈرامہ رچانے کی بازگشت دسمبر 1968 میں بھی سنی گئی تھی۔
اب ان اعتراضات کی جانب آتے ہیں جو سائنسدانوں نے اٹھائے ہیں۔
1- ناقدین ناسا کے سائنسدانوں کے عظیم شاہکار اپالو گیارہ کو ہالی وڈ کے ڈائریکٹروں کی شاندار تخلیق سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس سفر اور چاند پر انسانی قدم کو متنازعہ ماننے والوں کی نظر میں ناسا کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں کئی نقائص ہیں، جن سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے چالیس سال قبل انسان سچ مچ چاند پر نہیں پہنچا تھا۔
2۔اس سفر کی حقیقت سے انکار کرنے والوں کا خیال ہے کہ تصاویر میں خلانوردوں کے سائے مختلف سائز کے ہیں اور چاند کی سطح پر اندھیرا دکھایا گیا ہے۔
3۔ ان افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ چاند کی سطح پر لی گئی ان تصاویر میں آسمان تو نمایاں ہے مگر وہاں کوئی ایک بھی ستارہ دکھائی نہیں دے رہا حالانکہ ہوا کی ��یر موجودگی اور آلودگی سے پاک اس فضا میں آسمان پر ستاروں کی تعداد زیادہ بھی دکھائی دینی چاہئے تھی اور انہیں چمکنا بھی زیادہ چاہئے تھا۔
4۔ ان لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ناسا کی ویڈیو میں خلانورد جب امریکی پرچم چاند کی سطح پر گاڑ دیتے ہیں تو وہ لہراتا ہے جب کہ چاند پر ہوا کی غیر موجودگی میں ایسا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
5۔چاند کی تسخیر کو نہ ماننے والے ایک نکتہ یہ بھی اٹھاتے ہیں کہ اس ویڈیو میں ایک خلانورد جب زمین پر گرتا ہے تو اسے دوتین مرتبہ اٹھنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔ چاند پر کم کشش ثقل کی وجہ سے ایسا ہونا خود ایک تعجب کی بات ہے۔
6۔زمین کے بہت نزدیک خلائی مداروں میں جانے کے لیئے انسان سے پہلے جانوروں کو بھیجا گیا تھا اور پوری تسلی ہونے کے بعد انسان مدار میں گئے لیکن حیرت کی بات ہے کہ چاند جیسی دور دراز جگہ تک پہنچنے کے لئے پہلے جانوروں کو نہیں بھیجا گیا اور انسانوں نے براہ راست یہ خطرہ مول لیا۔
7۔ کچھ لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اگر انسان چاند پر پہنچ چکا تھا تو اب تک تو وہاں مستقل قیام گاہ بن چکی ہوتی مگر معاملہ برعکس ہے اور چاند پر جانے کا سلسلہ عرصہ دراز سے کسی معقول وجہ کے بغیر بند پڑا ہے۔ اگر 1969 میں انسان چاند پر اتر سکتا ہے تو اب ٹیکنالوجی کی اتنی ترقی کے بعد اسے مریخ پر ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہے۔ ناسا کے مطابق دسمبر 1972 میں اپولو 17 چاند پر جانے والا آخری انسان بردار خلائی جہاز تھا۔ یعنی 1972 سے یہ سلسلہ بالکل بند ہے ۔
8۔ چاند پر انسان کی پہلی چہل قدمی کی فلم کا سگنل دنیا تک ترسیل کے بعد
slow scan television -SSTV
فارمیٹ پر اینالوگ Analog ٹیپ پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ان ٹیپ پر ٹیلی میٹری کا ڈاٹا بھی ریکارڈ تھا۔ عام گھریلو TV اس فارمیٹ پر کام نہیں کرتے اسلیئے 1969 میں اس سگنل کو نہایت بھونڈے طریقے سے عام TV پر دیکھے جانے کے قابل بنایا گیا تھا۔ اب ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ایسے سگنل کو صاف ستھری اور عام TV پر دیکھنے کے قابل تصویروں میں بدل دے۔ جب ناسا سےSSTV کے اصلی ٹیپ مانگے گئے تو پتہ چلا کہ وہ ٹیپ دوبارہ استعمال میں لانے کے لئے مٹائے جا چکے ہیں یعنی اس ٹیپ پر ہم نے کوئی اور وڈیو ریکارڈ کردی ہے۔ اورناسا آج تک اصلی ٹیپ پیش نہیں کر سکا ہے۔
9۔ اسی طرح چاند پر جانے اور وہاں استعمال ہونے والی مشینوں کے بلیو پرنٹ اور تفصیلی ڈرائنگز بھی غائب ہیں۔
ان لوگوں کا اصرار رہا ہے کہ ان تمام نکات کی موجودگی میں چاند کو مسخر ماننا ناممکن ہے اور یہ تمام تصاویر اور ویڈیوز ہالی وڈ کے کسی بڑے اسٹوڈیو کا شاخسانہ ہیں۔تو یہ کچھ اعتراضات تھے جن کے تسلی بخش جوابات دیتے ہوئے ناسا ہمیشہ سے کتراتا رہا ہے۔ جو اس نے جوابات دیئے بھی ہیں وہ بھی نامکمل اور غیرشعوری ہیں۔
#fakemoonlanding
#معلومات #عالمی_معلومات #دنیا_بھر_کی_معلومات #جہان_کی_تازہ_معلومات #دنیا_کی_تحریریں #عالمی_خبریں #دنیا_کی_تاریخ #جغرافیائی_معلومات #دنیا_بھر_کے_سفر_کی_کہانیاں #عالمی_تجارت #عالمی_سیاست #تاریخ #اردو #اردو_معلومات #اردوادب
#Infotainment #information #History #WorldHistory #GlobalIssues #SocialTopics #WorldPolitics #Geopolitics #InternationalRelations #CulturalHeritage #WorldCulture #GlobalLeadership #CurrentAffairs #WorldEconomy #Urdu
بہرحال ہر انسان کے سوچنے کا انداز مختلف ہوتا ہےمیرے موقف سے ہر ایک کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
2 notes · View notes
apnabannu · 3 months
Text
ڈاکٹر رفیع محمد چودھری: پاکستانی ایٹمی پروگرام کے ’حقیقی خالق‘ جنھیں محمد علی جناح نے خط لکھ کر پاکستان مدعو کیا
http://dlvr.it/T93Xdn
0 notes
shiningpakistan · 7 months
Text
نواز شریف کہاں ہیں؟
Tumblr media
نواز شریف نے اپنی آخری سیاسی اننگ بغیر کھیلے ہی ختم کر دی۔ ایک ایسا شخص جو چار دہائیوں تک وطن عزیز کی سیاست پر چھایا رہا۔ ان کی سیاست کا یوں اختتام کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ اگرچہ وہ آمریت کی نرسری میں پلے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایک مزاحمتی سیاست دان کا روپ اختیار کیا جس کی وجہ سے انہوں نے بے مثال مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے'' میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا '' کا نعرہ لگایا اور قوم کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ ان کا سیاسی کیریئر ہر قسم کے اتار چڑھاؤ سے عبارت ہے۔ انہوں نے ایٹمی دھماکے کر کے خود کو محسن پاکستان کے طور پر پیش کیا تو دوسری طرف اٹل بہاری واجپائی کو لاہور میں بلایا اور جب دوبارہ موقع ملا تو نریندر مودی کو اپنی گھریلو تقریبات میں مدعو کیا اور وہ بھی سفارتی پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لاہور آئے اور شریف فیملی کے ساتھ وقت گزارا۔ ان کی زندگی ایک طرح سے مختلف تضادات سے عبارت تھی۔ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ہی اپنے اقتدار کو طول دیا۔ عوامی طاقت اور مقتدرہ کی اشیرباد سے وہ جب بھی اقتدار میں آئے ان کے اقتدار کا خاتمہ غیر فطری انداز میں ہوا۔ وہ اپنی نوعیت کے واحد حکمراں ہیں جو بذات خود اپنی کوئی بھی آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ پاکستان کے واحد حکمراں تھے جو وطن عزیز کے چاروں صوبوں میں یکساں مقبول تھے۔ انہوں نے اپنے عروج کے دنوں میں ملک کے تمام علاقوں میں بھرپور عوامی جلسے کیے۔ ہر صوبے کے سیاست دانوں کے ساتھ قریبی روابط رکھے۔ انہوں نے پاکستان کی ترقی میں بھی اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے تشکیل دیے ہوئے ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ آصف علی زرداری کے شروع کیے ہوئے سی پیک کو عملی شکل دی۔ پاکستان میں انفراسٹرکچر کا جال بچھایا لیکن پانامہ کا ڈنگ لگنے کے بعد ان کے اقتدار کو وہ زوال آیا کہ جو عروج کی طرح بے مثال تھا۔ جلاوطنی میاں نواز شریف کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی۔ انہوں نے مشرف کے ساتھ معاہدہ کر کے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے رکھی تاہم 2018 کے بعد کی جلاوطنی اس لحاظ سے منفرد تھی کہ لندن میں قیام کے دوران عوام کا ہجوم انکے گھر کے باہر رہتا جسکے باعث وہ لندن میں بھی محصور ہی رہے۔ اس دوران پاکستان کی سیاست میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔عمران خان کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا یہاں تک کہ ''رجیم چینج'' کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ 
Tumblr media
یہی وہ وقت تھا جب ایک طرف عمران خان کا عروج شروع ہوا اور میاں نواز شریف کا بتدریج زوال۔ پی ڈی ایم نے میاں شہباز شریف کی سربراہی میں جو حکومت قائم کی اس نے نہ صرف مسلم لیگ کو نقصان پہنچایا بلکہ میاں نواز شریف جیسے مدبر سیاستدان کی شہرت کو بھی داغدار کر دیا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ وہ نواز شریف جو مقتدرہ سے لڑائی کر کے عوام کی آنکھوں کا تارا تھا، ''ووٹ کو عزت دو'' کے نعرے نے کراچی سے لے کر خیبر تک بیداری کی ایک لہر پیدا کر دی تھی، ان کو اپنے اس نظریے سے بھی پیچھے ہٹنا پڑا اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر بھی خاموشی اختیار کرنا پڑی۔ انہوں نے ایک طرف مقتدرہ سے ہاتھ ملایا تو دوسری طرف عوام نے بھی انہیں اپنے دل سے اتار دیا۔ 2024 کے انتخابات ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ اس میں تحریک انصاف کی مشکیں کسی گئیں۔عمران خان کو پابند سلاسل کیا گیا۔ اس کی جماعت کا انتخابی نشان چھین لیا گیا اور مسلم لیگ کو کھلی چھٹی دی گئی۔
میاں نواز شریف شاید نوشتہ دیوار پڑھ چکے تھے اس لیے انہوں نے ان انتخابات میں وہ روایتی سرگرمی نہ دکھائی جو ان کا خاصہ تھی اور جن جلسوں سے خطاب کیا وہ بھی بے رغبتی کے عالم میں تھا جس کے نتائج انہیں آٹھ فروری کو دیکھنا پڑے۔ لیکن اس سارے اہتمام کے باوجود عمران خان کا جادو ایک مرتبہ پھر نصف النہار پہنچ گیا۔ اور اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملک پر چار دہائیوں سے حکومت کرنے والا شخص ایک گھر میں بند ہے تو دوسری طرف قیدی نمبر 804 پورے ملک پر حکومت کر رہا ہے۔ کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ کے الزامات نے انتخابات کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں ملا دی ہے۔ مسلم لیگ ن کو جس انداز میں فتح دلوائی گئی اور نشستیں جس طرح گھٹائی اور بڑھائی گئیں اسنے انتخابات کی شفافیت کو تو مشکوک بنایا ہی ہے میاں نواز شریف اور مسلم لیگ کی شناخت کو بھی گہری زک پہنچائی ہے۔ اس حالیہ فتح سے تو بہتر تھا کہ میاں نواز شریف لندن میں ہی قیام پذیر رہتے کم از کم ان کا بھرم ہی برقرار رہتا۔ میری دانست میں میاں نواز شریف اس خطے کے سب سے تجربہ کار رہنما ہیں۔
اپنی سیاست کا اس انداز میں اختتام کرنے کے بجائے خواجہ سعد رفیق کی طرح دل بڑا کر کے اپنی شکست تسلیم کرنی چاہیے اور جنہیں عوام نے مینڈیٹ دیا ہے انکا حق تسلیم کرنا چاہیے۔ انہیں چپ کا روزہ توڑ کر تحمل اور بردباری سے فیصلے کرنے چاہئیں۔ انتقام کی سیاست کو دفن کر کے سیاست اور اقتدار سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کی خدمت کرنی چاہیے۔ ہماری قوم کو بھی اپنے رہنماؤں کو باعزت طریقے سے رخصت کرنے کی روایت ڈالنی چاہیے۔ جس انداز میں نواز شریف کو خدا حافظ کہا جا رہا ہے وہ ہرگز مناسب نہیں۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
پاکستان میں پانی کا بحران
Tumblr media
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں پانی کی قلت میں اضافہ ہورہا ہے۔ عالمی ادارہ برائے خوراک وزراعت کی نئی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں ہر ایک منٹ میں 23 ایکڑ رقبہ پانی کی قلت کے باعث بنجر ہو رہا ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور پانی کی قلت کے بڑھتے ہوئے مسائل سے زرعی شعبہ کو سنگین خطرات درپیش ہیں، پاکستان میں 80 فیصد رقبہ پانی کی قلت سے متاثر ہے۔ آبی ذخائر نہ ہونے اور دریاؤں میں صنعتی اور شہروں کا آلودہ پانی شامل ہونے کی وجہ سے آبی حیات کو شدید نقصان کے علاوہ زرعی پیدا وار بھی متاثر ہو رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2025 تک دنیا میں 1.8 ارب افراد کو پانی کی کمی کا سامنا ہو گا اور دنیا کی دو تہائی آبادی پانی کی شدید قلت کا شکار ہو گی۔ 2045ء تک 135 ملین عالمی آبادی پانی کی قلت کے باعث اپنی آبادیاں چھوڑنے پر مجبور ہو جائے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آبی وسائل سے بھر پور استفادہ اور پانی کے استعمال میں احتیاط انتہائی ضروری ہے تاکہ آنے والے وقت میں آبی قلت، زمین کے بنجر ہونےاور صحراؤں میں اضافہ جیسے مسائل پر قابو پایا جا سکے۔ نیز پانی کے استعمال میں احتیاط ضروری ہے تاہم آبی قلت اور زمینوں کو بنجر ہونے اور صحرازدگی سے بچانے کیلئے پاکستان کو سر سبز بنانا ہو گا۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق پانی کی قلت کی فی کس سالانہ کم از کم حد ایک ہزار کیوبک میٹر ہے تاہم عرب شہریوں کو اوسطاً فی کس 500 کیوبک میٹر سے بھی کم پانی مل رہا ہے۔ دوسری جانب عرب ممالک میں موسمی تبدیلیاں اور آبادی میں اضافہ بھی ہو رہا ہے جس سے پانی کا بحران مزید بڑھ رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے قلت آب کے بارے میں عالمی رائے عامہ بیدار کرنے کیلئے خصوصی پروگرام شروع کیا ہے جسے پانی برائے پائیدار ترقی کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس 10 سالہ پروگرام کا آغاز 2018ء میں کیا گیا تھا اور یہ 2028ء تک جاری رہے گا۔ پاکستان اس وقت جن سنگین ترین بحرانوں سے دوچار ہے ان میں قومی سلامتی کو درپیش چیلنجوں اور خطرات کے بعد جو سب سے زیادہ اہم ہے وہ پانی کا مسئلہ ہے اس کو مزید سنگین کرنے میں بیرونی کیساتھ ساتھ اندرونی عوامل کا بھی بڑا ہاتھ ہے، تاریخ پر نظر ڈالیں تو پانی کی قلت اور کم یابی اسی وقت شروع ہو گئی تھی جب تقسیم کے بعد بھارت سے آنیوالے دریائوں کے پانی کی ملکیت کے تنازع نے جنم لیا، لیکن ہماری قیادت کی نااہلی نے اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مزید الجھا دیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ 70 برس قبل ہر پاکستانی کیلئے فی کس 5000 کیوبک میڑ پانی کی مقدار اب کم ہو کر محض ایک ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ اسی قلت کے سبب صوبوں کے درمیان ایک مرتبہ پھر تنازع کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔ 
Tumblr media
اس بحران کی اگرچہ بہت سی سیاسی وجوہات بھی ہیں لیکن صورتحال کو موجودہ نہج تک پہنچانے میں بھارت کی ہٹ دھرمی کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ پانی کے مسئلہ کے حل کیلئے اب تک بھارتی قیادت ک�� ساتھ بارہا مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے باوجود  باہمی اختلافات بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث بہتر ہونے کے بجائے مزید کشیدگی کی طرف بڑھتے رہے اور اس سلسلہ میں اب تک کی جانے والی تمام تر کوششیں ناکامی ہی سے دوچار ہوئی ہیں، حتیٰ کہ بھارت نے تمام معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جہاں پاکستان کے حصے میں آنیوالے پانی کا زبردستی استعمال شروع کر دیا وہیں پاکستان کی ملکیت کے دریائوں پر ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کر کے ایک ایسے تنازع کو ہوا دی جو دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان چوتھی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں ماہرین آئندہ عالمی جنگ پانی ہی کے مسئلے پر ہونے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں وہیں جنوبی ایشیاء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی ملکیت اور تقسیم کے تنازع کو بھی انتہائی خطرناک قرار دیا جا ��ہا ہے۔ 
پانی کی کمی کے سبب جہاں خطے کا امن دائوپر لگا ہوا ہے وہیں پاکستان کی زراعت، جو کہ ہماری معیشت کی بنیاد ہے، بھی تباہی کی طرف گامزن ہے اور وہ خطہ جو زرعی لحاظ سے دنیا میں ذرخیز ترین تصورکیا جاتا تھا پانی کی کمی کے سبب بنجر ہوتا جا رہا ہے۔ 1960ء میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے، جس کے ورلڈ بنک، برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینڈا ضامن ہیں، کے تحت پاکستان اور بھارت دونوں کو تین تین دریائوں کے پانیوں پرملکیت کا حق دیا گیا ہے معاہدے کے مطابق ستلج، بیاس اور راوی بھارت جبکہ چناب، جہلم اور سندھ پاکستان کے حصے میں ہیں لیکن اس کے باوجود تنازع ختم نہ ہو سکا، بھارت نے تمام تر شرائط اور وعدے نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کے حصے میں آنیوالے دریائے چناب پر 450 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے بگلیہار ڈیم کی تعمیر کا اعلان کر دیا جس کے بعد دونوں ملکوں کے مابین پہلے ہی سے موجود تنازع کو مزید شدید کر دیا، منصوبے کے تحت 470 فٹ بلندی پر پانی کے اس ذخیرے کی تعمیر پاکستانی زراعت کیلئے زہر قاتل ہے جبکہ ساتھ ہی ملک میں توانائی کے بحران میں بھی شدت کا باعث ہے۔ 
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق 9 اکتوبر 2008 ء اور گیارہ اکتوبر 2008ء کے دوران صرف تین دن میں بھارت نے پاکستان کو عام حالات میں ملنے والا 55000 کیوسک پانی کم کر کے 10739 کیوسک اخراج تک محدود کر دیا۔ حکومت سے درخواست ہے کہ نئے ڈیمز بنانے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے جس سے پاور سیکٹر میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔
خلیل احمد نینی تا ل والا
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
ایسٹ انڈیا کمپنی پاکستان لمیٹڈ
Tumblr media
کیا کمال تصویر ابھر رہی ہے۔ کل جو نون لیگ عمران خان اور ان کی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کا بغل بچہ کہتی تھی آج اسی نون لیگ نے وہی تمغہ چکلے سینے پر سلوا لیا ہے۔ پیپلز پارٹی جو کل تک اینٹی سٹیٹس کو جماعت ہونے کا تاثر بیچ سکتی تھی۔ آج وہی پیپلز پارٹی سٹیٹس کو کی بی ٹیم نظر آ رہی ہے اور کل تک جو تحریکِ انصاف نیم عسکری جمہوریت کی پاپوش بردار تھی، آج وہ ضیا دور کے جیالا کلچر کی فوٹوکاپی لگ رہی ہے۔ کل تک نواز شریف ’مجھے کیوں نکالا‘ کی جو تبسیح گھما رہے تھے، وہی تسبیح آج عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔ کل تک ’ووٹ کو عزت دو‘ کے جملہ حقوق نواز شریف کے پاس تھے۔ نون لیگ اور ہم نواؤں کا مطالبہ تھا کہ نجات کا ایک ہی راستہ ہے جلد انتخابات۔ جبکہ عمران خانی کابینائی آرکسٹرا یک سُر تھا کہ انتخابات تو مقررہ آئینی وقت پر ہی ہوں گے۔ تاش کی گڈی وہی پرانی ہے۔ بس بانٹنے والے نے پتے بدل دیے۔ جو کل تک فوری انتخابات مانگ رہے تھے آج ترازو کے پلڑے برابر نہ ہونے تک پولنگ کرانے کے موڈ میں نہیں اور جو کل تک اپنی پنج سالہ مدت کے اختتام سے پہلے کسی صورت انتخابات کے لیے راضی نہ تھے آج وہی پارٹی پرسوں شام تک انتخابات چاہتی ہے۔
نوے روز کی آئینی مدت میں انتخابات کے منکرِ اول ضیا الحق کی روح کو اب کہیں 46 برس بعد جا کے مکتی ملی ہو گی۔ کل تک جو پی ڈی ایم عمران خان پر آئین شکنی کا الزام دھر رہی تھی آج وہی الزام پی ڈی ایم کی پیشانی پر چمک رہا ہے۔ یہی وہ اتحادی جماعتیں ہیں جن کے پرکھے باوردی آئین شکنی کے خلاف جدوجہد کرتے کرتے خرچ ہو گئے۔  کل جو ن لیگ عمران خان اور ان کی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کا بغل بچہ کہتی تھی آج اسی نون لیگ نے وہی تمغہ چکلے سینے پر سلوا لیا ہے اب کہیں جا کے ایوب، ضیا اور پرویز نے قبر میں سکھ کا سانس لیا ہو گا۔ کہنے کو آج بھی پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت ہے۔ مگر قومی اسمبلی کو عمران خان نے کتر لیا۔ آج جو قائدِ حزبِ اختلاف ہے، اس سے زیادہ معروف اور بااختیار تو شمالی کوریا کی پارلیمان کا لیڈر آف دی اپوزیشن ہے۔ فائدہ البتہ یہ ہے کہ ان دنوں وہ وہ قانونی بل بھی آرام سے منظور ہو رہے ہیں جو کسی صحت مند مکمل قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش ہوتے تو پیش کاروں کے دانتوں تلے پسینہ آ جاتا۔
Tumblr media
کل تک پی ڈی ایم کے گرگانِ باران دیدہ طعنہ زن تھے کہ فوجی قیادت نے دو ہزار اٹھارہ کے آپریشن آر ٹی ایس کے ذریعے جس لونڈیہار پارٹی کو سرکار تھمائی۔ اس نے معیشت سے وہ کھلواڑ کیا کہ عام آدمی کی کمر ٹوٹ گئی اور اسے اقتدار میں لانے والے بھی بغلیں جھانکنے لگے۔ آج معیشت کی رکاب پر انھی آزمودہ سیاست بازوں کا پاؤں ہے اور لونڈیہار پارٹی چیلنج کر رہی ہے کہ کم از کم ہمارے دور میں ہزاروں برقع پوش خواتین اور سفید داڑھیوں والے مرد ایک زرعی ملک میں پانچ کلو مفت آٹے کی ایک بوری حاصل کرنے کی دوڑ میں محروم ہجوم کے پاؤں تلے کچلے تو نہیں جا رہے تھے۔ غیر نوبیل ماہرِ معیشت اسحاق ڈار نے پچھلے چھ ماہ سے جنتا کو آئی ایم ایف کے ممکنہ قرضے کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے اور آئی ایم ایف نے ریاستِ پاکستان کو اسی کام پر لگا رکھا ہے۔ مگر آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط ملنے میں ناکامی کو بھی کام میں لانے کا فن کوئی موجودہ لال بھجکڑوں سے سیکھے۔
توجہ بٹانے کے لیے پہلے یہ شوشا چھوڑا گیا کہ قسط نہ ملنے کا ایک سبب شاید جوہری پروگرام پر سودے بازی کے لیے دباؤ ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ’میں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بیان ایک ساتھی سینیٹر کی بات کے جواب میں دیا تھا جس کا آئی ایم ایف سے جاری مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں‘ جب آئی ایم ایف نے اعلانیہ تردید کر دی کہ ہمارا یہ کام نہیں کہ ملکوں کے جوہری منصوبوں پر نظر رکھتے پھریں۔ تب بادلِ نخواستہ بھائی اسحاق کو بھی کہنا پڑا کہ قرضے میں تاخیر کا سبب جوہری پروگرام پر دباؤ نہیں ہے۔ پھر اسی آئی ایم ایف کا بھوت دکھا کے الیکشن کمیشن کو تاثر دیا گیا کہ دو صوبائی انتخابات فوری طور پر کرانے کے لیے حکومت کے پاس پیسہ نہیں کیونکہ آئی ایم ایف نے مالیاتی خسارہ کم کرنے کی شرائط سے ہمارے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ جب آئی ایم ایف سے اس بابت ایک صحافی نے استفسار کیا تو ادارے کی کنٹری ڈائریکٹر کو کھل کے کہنا پڑا کہ آئی ایم ایف کسی بھی ملک کو اپنی آئینی و جمہوری زمہ داریاں نبھانے سے کبھی نہیں روکتا۔ اس کے باوجود بھولے بھالے الیکشن کمیشن نے اپنے ہی اعلان کردہ صوبائی انتخابات کی تاریخ بظاہر اپنی مرضی سے آٹھ اکتوبر کر دی۔
تاویل یہ ہے کہ نوے روز یا مقررہ آئینی مدت کے آس پاس انتخابات کروانے کے اعلی عدالتی حکم کے باوجود مرکزی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے امن و امان اور معیشت کی دگرگوں صورت کے سبب الیکشن بجٹ اور سیکورٹی فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ گویا آٹھ اکتوبر تک معیشت بھی بہتر ہو جائے گی، دہشت گردی بھی قابو کر لی جائے گی۔ کیا موجودہ حالات میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے اس سے بہتر خوش خبری ممکن ہے؟ کچھ عرصے پہلے تک میرا خیال تھا کہ فسطائی یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ اب لگتا ہے کہ فسطائیت نظریہ سے زیادہ کیفیت کا نام ہے جو کسی بھی بھلے چنگے دکھائی دینے والے جمہوریت نواز پر طاری ہو سکتی ہے اور اتنی گہری طاری ہو سکتی ہے کہ کل کا فسطائی مدِ مقابل آج جمہوریت کا چیمپیئن دکھائی دے۔ اس ملک کا واحد سچ یہ ہے کہ یہ بن گیا۔ تب سے مکین یا تو مسلسل ’بنائے‘ جا رہے ہیں یا خود ’بن‘ رہے ہیں۔ باجوہ سر جاتے جاتے اس اندرونی فیصلے کی خوش خبری دے گئے کہ کم از کم اگلے پندرہ بیس برس تک سیاست میں عسکری مداخلت نہیں ہو گی۔
باجوہ سر کی رخصتی کے بعد سے رجواڑی معاملات میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی عدم مداخلت اور غیر جانبداری کا دور بے طرح یاد آ رہا ہے۔ ویسے بھی دو سو برس میں ڈی این اے بدل تھوڑی جاتا ہے۔ آخر کو ہمارے خطے کے عسکری و سیاسی کلچر کو کمپنی بہادر نے ہی تو جنم دے کے پالا پوسا تھا۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
آخر امریکہ چاہتا کیا ہے؟
امریکہ کے منصب صدارت پر متمکن 80 سالہ صدر جو بائیڈن نے گزشتہ دنوں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے متعلق ایک متنازعہ بیان دے کر ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا۔ جو احباب پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ سے واقف ہیں ان کے لیے اس بیان میں کوئی نئی بات نہیں۔ 1950 کی دہائی میں سرد جنگ کے دوران پاکستان نے روس کے بجائے امریکہ کا انتخاب کیا۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم قائد ملت لیاقت علی خان نے روس کے بجائے امریکہ کا دورہ کر کے واضح طور پر امریکی اتحادی ہونے کا اعلان کیا۔ لیکن پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ دھوپ چھاؤں کی مانند ہی رہی۔ کبھی پاکستان امریکی توقعات پر پورا نہ اترا تو کبھی امریکہ نے پاکستان کی امیدوں کے برعکس اقدامات کئے۔ تاہم پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں امریکہ واحد ملک ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کے سیاسی اور دفاعی معاملات میں شریک کار رہا۔ 1954 سے لیکر اب تک مختلف مواقع پر امریکہ نے پاکستان کو امداد فراہم کی۔
ایک زمانہ وہ تھا کہ جب گندم بھی امریکہ سے آتی تھی اور گندم اٹھانے والے اونٹوں کے گلے میں’’تھینک یو امریکا ‘‘کا ٹیگ لگا ہوتا تھا۔ امریکہ کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ امریکہ نے اس گندم کے پیسے ڈالر کے بجائے روپوں میں وصول کرنے کی سہولت دی اور ساتھ ہی یہ بھی پیش کش کر دی کہ وہ یہ رقم امریکہ کو ادا کرنے کے بجائے پاکستان میں ہی ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کریں۔  1954 میں دونوں ممالک کے درمیان پہلا دفاعی معاہدہ ہوا۔ 1954 سے 1964 تک امریکہ کی جانب سے پاکستان کو 70 کروڑ ڈالر فراہم کیے گئے۔ 1980 کی دہائی پاک امریکا تعلقات کے نئے دور کے آغاز کی دہائی کہلائی جا سکتی ہے۔ 1979 میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھ لیا۔  ابتدا میں صدر جمی کارٹر نے پاکستان کو 40 کروڑ ڈالر کی پیشکش کی جسے پاکستان نے ’’مونگ پھلی‘‘ کہہ کر مسترد کر دیا۔ 1981 میں صدر ریگن نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد کی پیشکش کی جسے قبول کر لیا گیا۔ 1980 سے 1990 کے درمیان امریکہ نے پاکستان کو 2 اعشاریہ 19 ارب ڈالر کی فوجی معاونت فراہم کی جبکہ معاشی ترقی کے لیے 3 اعشاریہ 1 ارب ڈالر بھی فراہم کیے۔
اس دور میں مسلح افواج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا گیا۔ امریکہ نے پاکستان کو 40 ایف 16 طیاروں سمیت جدید ہتھیاروں کی ایک بڑی کھیپ بھی مہیا کی۔ اس وقت کے صدر پاکستان، جنرل محمد ضیاء الحق نے امریکی عزائم کو بھانپتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر تیزی سے عملدرآمد شروع کیا۔ مختلف حکومتوں کی تبدیلیوں کے باوجود پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کسی حکمران جماعت نے سمجھوتا نہ کیا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ذوالفقار علی بھٹو کا منصوبہ تھا جسے بعد میں آنے والے تمام حکمرانوں نے تیز رفتاری کے ساتھ جاری رکھا۔ یہاں تک کہ جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے 28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کے ایٹمی ��وت ہونے کا اعلان کیا۔ اس وقت کے امریکی صدر کلنٹن نے دھماکے رکوانے کے لئے میاں نوازشریف کو متعدد فون کئے۔ ان پر دباؤ ڈالا۔ 
مبینہ طور پر رقم دینے کی بھی پیشکش کی۔ تاہم انہوں نے پاکستانی عوام کی امنگوں کے مطابق ایٹمی دھماکے کر دئیے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہمیشہ امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکتا رہتا ہے۔ ہر امریکی حکمران اس حوالے سے مختلف نوعیت کے بیانات دے کر اپنے خبث باطن کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا حالیہ بیان بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت نے بجا طور پر امریکی صدر کے بیان کو مسترد کیا ہے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے محفوظ ہونے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے بجا طور پر یہ کہا گیا کہ اگر ایٹمی پروگرام کے غیر محفوظ ہونے کی بات کرنی ہے تو اس کا سب سے پہلا نشانہ تو بھارت ہونا چاہیے جس کے میزائل پاکستان میں آکر گرے جب کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کمیشن نے اس کے انتظامات کو عالمی معیار کے عین مطابق قرار دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکی صدر کا بیان ان کے اس ذہنی دباؤ کی عکاسی کرتا ہے جس سے وہ دوچار ہیں۔
ڈیموکریٹک کانگریشنل کمپین کمیٹی کے استقبالیے میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن کا خطاب وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔ جس میں بائیڈن کے حوالے سے لکھا گیا کہ’’ میرے نزدیک شاید دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک، پاکستان ہے۔ اس کے پاس موجود جوہری ہتھیار غیر منظم ہیں۔‘ ''امریکی صدر کے یہ الفاظ بدلتے ہوئے عالمی سیاسی منظرنامے کوذہن میں رکھ کر ادا کیے گئے۔ روس یوکرائن جنگ کے دوران روس کی مسلسل بالادستی اور چین کی عالمی سفارتکاری نے امریکی صدر کو شدید ذہنی دباؤ کا شکار کر دیا ہے۔ عالمی منظر نامے پر امریکہ کے کئی پرانے اتحادی اسے چھوڑ رہے ہیں۔ کئی نئے بلاک امریکی طاقت کو چیلنج کرنے جا رہے ہیں۔ روس یوکرین تنازعات کے دوران اقوام متحدہ میں پاکستان سمیت متعدد ممالک کے غیر جانبدار رویے نے بھی امریکی صدر کو جھنجھلا کر رکھ دیا ہے۔ اس امر میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
پاکستان کی مسلح افواج دنیا کی بہترین پروفیشنل افواج میں شمار ہوتی ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی، توازن اور سمجھ داری کے ساتھ چلائی جا رہی ہے۔ بعض اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دفتر خارجہ پر کی گئی تنقید بلا جواز معلوم ہوتی ہے کیونکہ پاکستانی وزارت خارجہ نے ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے۔ اس بیان کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے یک زبان ہو کر ایٹمی پروگرام کے تحفظ کے عزم کا اظہار کیا اور امریکی صدر کے بیان کو نہ صرف غیر ضروری قرار دیا بلکہ اس کی مذمت بھی کی۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے بیان میں صدر بائیڈن سے کئی سوالات پوچھے جبکہ صف اول کے دیگر سیاسی رہنماؤں کی جانب سے مثبت اور ذمہ دارانہ بیانات انکے ذمہ دار فرد ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ آنے والے دنوں میں نئی عالمی صف بندی کی جائے گی جس کیلئے نئے کردار کے تعین کیلئے پاکستان کی سیا��ی اور عسکری قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا تاکہ ایسی پالیسی ترتیب دی جا سکے جو بدلتے ہوئے عالمی تقاضوں کے مطابق پاکستانی مفادات کا تحفظ کر سکے۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
azharniaz · 3 years
Text
پاکستان کا ایٹمی پروگرام ایک بار پھرنشانے پر: تحریر وجیہ احمد صدیقی
پاکستان کا ایٹمی پروگرام ایک بار پھرنشانے پر: تحریر وجیہ احمد صدیقی
پاکستان ایک بار پھر آئی ایم ایف کی غلامی میں چلا گیا ہے اور ڈر ہے کہ ا س بار آئی ایم ایف پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سوداکرے گا۔ایک کمزور پاکستان زندہ رہنے کے لیے اپنا سب کچھ بیچ دے گااسی مقصد کے لیے حفیظ شیخ اور رضا باقر کو لایا گیا اسی مقصد کے لیے سی پیک منصوبے کو لپیٹا گیا تاکہ پاکستان اپنے پیروں پر نہ کھڑا ہوسکے امریکہ افغانستان سے تو چلا گیا لیکن پاکستان میں آئی ایم ایف کے ناقابل علاج وائرس…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
weaajkal · 5 years
Photo
Tumblr media
ایران 2015 میں ہونے والے ایٹمی پروگرام کے اہم حصے سے دستبردار #Iran #Atomic #Program #Aajkalpk تہران: ایران 2015 میں ہونے والے ایٹمی پروگرام کے عالمی معاہدے کے اہم حصے سے دستبردار ہوگیا۔
0 notes
faheemkhan882 · 2 years
Text
اکستان کے ایٹمی پروگرام کی حفاظت ہماری قومی و دینی ذمہ داری ھے۔ ‏اس پروگرام کے ساتھ غدّاری ملک و دین کے ساتھ غدّاری ہوگی۔ ‏کوئی بھی محب وطن اس صلاحیت پر سودے بازی نہیں کرسکتا۔ ‏جس نے ایسی کوئی ناپاک جسارت کی تو اسے روکنا اور اس کی جسارت کو ناکام بنانا ہمارے دین و ایمان کا تقاضا ھے!
#pakistanwakeup #pakistan #pakistanipolitics #pakistaniarmy #pakistanpeoplesparty #pakistantehreekeinsaf #pakistanijudiciary #pakistanijudiciary #pakistanipolitician #pakistandefault #pakistaneconomy #PTI #pmln #ppp #juif #instapost #instalike #instagram #instapic #instagramreels #instareels #instadaily #instagramreels #reelit #reelsinstagram #reelsfb #reels2023 #reelsviral #reelsvideo #reelitfeelit #reels #viralpage #viralreels #viralpakistan #viralurduposts #viralreels #trending #trendingnow #trendingreelsvideo #trendingpost #neutrals #neuclear #weapon #army #pakistanigeneral
0 notes
apnabannu · 3 months
Text
ڈاکٹر رفیع محمد چودھری: پاکستانی ایٹمی پروگرام کے ’حقیقی خالق‘ جنھیں محمد علی جناح نے خط لکھ کر پاکستان مدعو کیا
http://dlvr.it/T92c4n
0 notes
shiningpakistan · 1 year
Text
آئی ایم ایف کی 1998 جیسی سخت شرائط
Tumblr media
آئی ایم ایف کی اضافی شرائط اور پروگرام کی بحالی میں تاخیر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بار پاکستان کو آئی ایم ایف کی 1998 ء جیسی سخت شرائط کا سامنا ہے، جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے اور معاشی مشکلات کے باعث پاکستان کو 400 ملین ڈالر کے مالیاتی فرق کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا جس پر 1999 میں آئی ایم ایف نے پروگرام بحالی کیلئے 24 سخت شرائط رکھیں جنہیں پاکستان نے پورا کیا۔ اس بار بھی ہمیں معاہدے کی بحالی میں آئی ایم ایف کا رویہ سخت نظر آرہا ہے جس نے شرائط پر عمل کرنا نہایت مشکل بنا دیا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کیلئے پہلے ہی تمام شرائط مان لی ہیں اور پارلیمنٹ سے اضافی ریونیو کیلئے 170 ارب روپے کا منی بجٹ بھی منظور کرا لیا ہے جبکہ اسٹیٹ بینک نے افراط زر پر قابو پانے کیلئے اپنے ڈسکائونٹ ریٹ میں 3 فیصد اضافہ کر کے 20 فیصد کر دیا ہے جس کے بعد آئی ایم ایف نے 4 پیشگی اقدامات کی اضافی شرائط رکھی ہیں جن میں گردشی قرضوں کو کنٹرول کرنے کیلئے تمام صارفین کیلئے بجلی کے نرخوں میں 3.82 روپے فی یونٹ چارج لگایا جانا، مارکیٹ کی بنیاد پر روپے کو فری فلوٹ رکھنا جس میں حکومت کی کوئی دخل اندازی نہ ہو اور بیرونی ادائیگیوں میں 7 ارب ڈالر کی کمی کو پورا کرنے کیلئے دوست ممالک سے سافٹ ڈپازٹس یا رول اوور کی ضمانت حاصل کرنا شامل ہے۔ 
اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے پاکستانی روپے کے ایکسچینج ریٹ کو افغان بارڈر ریٹ سے منسلک کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے جو پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی کا باعث ہو گا کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے مابین ڈالر ریٹ میں تقریباً 20 روپے کا فرق پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر سال تقریباً 2 ارب ڈالر پاکستان سے افغانستان اسمگل ہوتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ موجودہ آئی ایم ایف معاہدہ جون 2023 میں ختم ہو جائے گا لہٰذا بجلی کے بلوں میں مستقل بنیادوں پر سرچارج لگانا مناسب نہیں۔ حکومت اور آئی ایم ایف کی بیرونی ادائیگیوں کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ حکومت کے مطابق ہمیں 5 ارب ڈالر جبکہ آئی ایم ایف کے حساب سے 7 ارب ڈالر کمی کا سامنا ہے۔ چین کی طرف سے پاکستان کو پہلے ہی 700 ملین ڈالر مل چکے ہیں اور 1.3 ارب ڈالر کی 3 قسطیں جلد ملنے کی توقع ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب سے 2 ارب ڈالر، UAE سے 1 ارب ڈالر، ورلڈ بینک اور ایشین انفرااسٹرکچر بینک کے 950 ملین ڈالر کے اضافی ڈپازٹس ملنے کی توقع ہے جس سے جون 2023 تک پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر موجودہ 4 ارب ڈالر سے بڑھ کر 10 ارب ڈالر ہو جائیں گے جو آئی ایم ایف کی شرط کو پورا کرتا ہے۔
Tumblr media
آئی ایم ایف کا پاکستان اور دیگر ممالک کو قرضے دینا احسان نہیں بلکہ یہ آئی ایم ایف کے ممبر ممالک کا حق ہے کہ مالی مشکلات کے وقت آئی ایم ایف ان کی مدد کرے۔ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے والے ممالک میں ارجنٹائن 150 ارب ڈالر قرضے کے ساتھ سرفہرست ہے جس کے بعد مصر 45 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے، ایکواڈور 40 ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے، یوکرین 20 ارب ڈالر کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے جس کے بعد پاکستان، لاطینی امریکی ممالک اور کولمبیا آتے ہیں۔ پاکستان اب تک آئی ایم ایف کے ساتھ مجموعی 23.6 ارب ڈالر کے 22 سے زائد معاہدے کر چکا ہے لیکن ان سے صرف 14.8 ارب ڈالر کی رقم حاصل کی ہے اور باقی پروگرام مکمل ہوئے بغیر ختم ہو گئے۔ آئی ایم ایف کا موجودہ 6.5 ارب ڈالر کا توسیعی فنڈ پروگرام 2019 میں سائن کیا گیا تھا جس کو بڑھا کر 7.5 ارب ڈالر تک کر دیا گیا جو جون 2023 میں ختم ہو رہا ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کے حالیہ نویں جائزے کی شرائط مکمل کرنے کے بعد پاکستان کو1.1 ارب ڈالر ک�� قسط ملے گی۔ 
حکومت کے آئی ایم ایف شرائط ماننے سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آنے کے علاوہ بیرونی ممالک سے بھی شکایتیں اور دبائو بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں جرمنی کے سفیر الفریڈ گرناس نے وفاقی وزیر معاشی امور سردار ایاز صادق سے اسٹیٹ بینک کی جرمنی سے مرسڈیز، BMW اور Audi الیکٹرک گاڑیوں کی امپورٹ اور بینکوں کے LC کھولنے پر پابندی پر اعتراض کیا ہے کہ یہ WTO معاہدے، جس کا پاکستان ممبر ملک اور دستخط کنندہ ہے، کے خلاف ہے لہٰذا جرمنی سے الیکٹرک گاڑیوں کی امپورٹ کی فوری اجازت دی جائے بصورت دیگر جرمنی، پاکستان کے یورپی یونین کے ساتھ GSP پلس ڈیوٹی فری معاہدے، جو 31 دسمبر 2023 کو ختم ہو رہا ہے، کی مزید 10 سال تجدید کیلئے پاکستان کو سپورٹ نہیں کرے گا اور اس پابندی سے پاکستان اور جرمنی کے تجارتی تعلقات پر اثر پڑے گا۔ اس کے علاوہ غیر ملکی ایئر لائنز کی 225 ملین ڈالرکی ترسیلات زر نہ ہونے کے باعث غیر ملکی ایئر لائنز نے پاکستان کیلئے سخت پالیسیاں اور ٹکٹ مہنگے کر دیئے ہیں جس میں حکومت کی حج زائرین کیلئے ڈالر کی فراہمی پر بھی نئی پابندیاں شامل ہیں۔
پاکستان ان شاء اللہ ڈیفالٹ نہیں ہو گا لیکن بے شمار قارئین نے مجھ سے ڈیفالٹ کے ملکی معیشت پر اثرات کے بارے میں پوچھا ہے۔ آسان الفاظ میں ایک خود مختار ملک کے واجب الادا قرضوں اور انٹرنیشنل مارکیٹ میں بانڈز کی ادائیگی میں ناکامی کو ’’ساورن ڈیفالٹ‘‘ کہا جاتا ہے جس کا حکومت رسمی اعلان کر سکتی ہے جیسے سری لنکا نے کیا یا پھر حکومت ان قرضوں کو ری اسٹرکچر یا ادائیگی میں تاخیر کی درخواست کرتی ہے جو تکنیکی اعتبار سے ڈیفالٹ ہی کہلاتا ہے۔ اس صورت میں مقامی کرنسی کی قدر کافی حد تک گر جاتی ہے اور بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں اُس ملک کی ریٹنگ کم کر دیتی ہیں جس سے ملک کے بینکوں کا بین الاقوامی مارکیٹ میں تجارت کرنا مشکل ہو جاتا ہے، شرح سود میں اضافہ اور سپلائرز LCs پر غیر ملکی بینکوں کی کنفرمیشن مانگتے ہیں جس سے LCs اور امپورٹ کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے UNCTD نے پاکستان کو دنیا کے اُن 5 ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جن پر بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا ناقابل برداشت دبائو ہے۔ ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ سری لنکا، مصر، کولمبیا اور انگولا شامل ہیں۔ ایسی صورتحال میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپیل کی ہے کہ پاکستان کی موجودہ مالی مشکلات کا سبب کچھ ترقی یافتہ ممالک کی معاشی پالیسیاں ہیں، امیر ممالک کو چاہئے کہ وہ پاکستان کی مدد کریں جس کیلئے میرے نزدیک ملک میں سیاسی استحکام اشد ضروری ہے۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 3 years
Text
محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رخصتی
قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے بعد وطنِ عزیز پاکستان کی جن اہم ترین شخصیات کو عوامی محبت و اکرام ملا، ذو الفقار علی بھٹو اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان ان میں ممتاز ترین اور سر فہرست حیثیت رکھتے ہیں۔ بعض مقامی اور بین الاقوامی قوتوں نے دونوں شخصیات کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔ عوام مگر دونوں کا دل و جاں سے احترام و اکرام کرتے رہے۔ دونوں کا ’’قصور‘‘ یہ تھا کہ ایک نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی اساس رکھی اور دوسرے نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔ افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ان دونوں عظیم پاکستانی شخصیات کی موت اس حال میں ہُوئی کہ ایک پھانسی کے تختے پر اُس وقت جھول گیا جب ملک آمریت کے سائے تلے کراہ رہا تھا اور دوسرے نے ایسے حالوں میں موت کو لبیک کہا کہ اسپتال میں کوئی اہم ترین سرکاری شخصیت اُن کی تیمار داری اور پرسش کے لیے حاضر نہ ہو سکی۔ جی ہاں ، پاکستان کی یہ اہم ترین اور محترم ترین شخصیت اب ہمارے درمیان میں نہیں رہی۔ 
ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے خالق کے پاس حاضر ہو گئے ہیں۔ اُن سے پوری پاکستانی قوم کی محبت کا یہ عالم تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کروڑوں عوام نے اُن کی بے مثل خدمات کے صلے میں انھیں ’’محسنِ پاکستان‘‘ کے لقب سے نوازا۔ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پچھلے چند ہفتوں سے خاصے بیمار تھے۔ کووِڈ 19کے اِس جاں سوز اورمہلک موسم سے وہ بھی متاثر ہُوئے تھے؛ چنانچہ اسپتال میں داخل کر دیے گئے تھے۔ پہلے اسلام آباد میں اور پھر راولپنڈی میں۔ درمیان میں کچھ دنوں کے لیے اُن کی صحت سنبھل بھی گئی تھی لیکن مکمل صحت کی جانب وہ لَوٹ نہ سکے۔ بسترِ علالت پر انھیں اس بات کا شدید رنج اور قلق تھا کہ کوئی ایک بھی اہم سرکاری اور غیر سرکاری شخصیت اُن کی عیادت کے لیے نہ آ سکی تھی؛ چنانچہ ایک انگریزی اخبار کے رپورٹر سے انھوں نے اس بات کا بر ملا گلہ اور افسوس بھی کیا تھا۔ کسی حکمران نے فون کے ذریعے بھی اُن کا حال تک نہ پوچھا۔ ہماری سیاسی اور مقتدر شخصیات اس قدر بے حس ہو چکی ہیں کہ کسی اَن دیکھی طاقت سے خوف کھاتے ہُوئے بسترِ مرگ پر پڑے اُس شخص کا حال احوال پوچھنے سے بھی گریزاں رہیں جس نے پاکستان کو ہر قسم کے دشمنوں کی یلغار سے ہمیشہ کے لیے محفوظ و مامون بنا ڈالا۔ 
ڈاکٹر قدیر خان کی عیادت کے لیے نہ تو ہمارے صدر صاحب جا سکے، نہ وزیر اعظم صاحب اور نہ ہی کوئی اپوزیشن لیڈر۔ ڈاکٹر خان سے بے پناہ محبت کرنے والے عوام کو بھی اُن ملنے نہیں دیا جاتا تھا۔ سخت پابندیاں تھیں۔ وہ شدید تنہائی اور قید کے ماحول میں اپنے اللہ کے پاس پہنچے ہیں۔ اتنے بڑے احسانوں کی ایسی سزا؟ یہ تو کبھی انھوں نے اُس وقت سوچا بھی نہ ہو گا جب وہ ہالینڈ میں ایک شاندار ملازمت اور پُر آسائش زندگی کو تیاگ کر محض اپنے وطن کی کامل خدمت کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان آئے تھے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی دشمنی اور مخالفت میں امریکی اور مغربی ممالک اور وہاں کے میڈیا نے محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف بھرپور مہمات چلائیں لیکن وہ سب مل کر بھی پاکستانی عوام کے دلوں سے ڈاکٹر خان کی محبت ختم نہ کروا سکے ۔ ہمارے ملک کے نامور اخبار نویس اور ’’ایکسپریس‘‘ کے معروف کالم نگار جناب عبدالقادر حسن مرحوم جب تک حیات رہے، ہمیشہ ڈاکٹر خان کا ذکر اعلیٰ ترین الفاظ میں اور محبت سے کرتے رہے۔
عبدالقادر حسن صاحب مرحوم ہر اُس مقامی اور عالمی شخصیت اور ادارے کی بھی گوشمالی کرتے تھے جوتعصب سے مغلوب ہو کر ڈاکٹر خان کو ہدف بناتے تھے۔ اسلام آباد میں فروکش ممتاز صحافی جناب زاہد ملک مرحوم بھی ڈاکٹر خان کے سب سے بڑے حامی تھے۔ زاہد ملک صاحب نے تو ڈاکٹر خان کی شخصیت اور خدمات پر مبنی ایک ضخیم کتاب ( محسنِ پاکستان کی ڈی بریفنگ) بھی لکھی۔ اس تصنیف میں ڈاکٹر خان پر عائد کیے جانے والے متنوع الزامات کا شافی جواب بھی دیا گیا۔ اور یہ جناب مجیب الرحمن شامی کا جریدہ (قومی ڈائجسٹ) تھا جس نے پاکستان میں سب سے پہلے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مفصل انٹرویو شایع کیا تھا۔ ویسے تو عالمی سطح پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام اور پاکستان کو جوہری طاقت بنانے کے حوالے سے اُن کی شخصیت کی باز گشت عالمی میڈیا میں مسلسل سنائی دیتی رہتی تھی لیکن اس بازگشت میں اُس وقت بے پناہ اضافہ ہُوا جب ممتاز بھارتی صحافی، آنجہانی کلدیپ نئیر، نے بھارت سے اسلام آباد آ کر ڈاکٹر خان کا مفصل انٹرویو کیا۔ اسی تاریخی انٹرویو میں پہلی بار اعتراف اور اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔
یہ انٹرویو پاکستان کے ایک اہم صحافی ، جو اب مشہور سیاستدان بھی ہیں، کے توسط سے کیا گیا تھا۔ یہ انٹرویو بذاتِ خود ایٹم بم بن کر بھارت کے حواس پر گرا تھا۔ ساتھ ہی ساری دُنیا بھی ششدر رہ گئی تھی۔ کلدیپ نئیر نے اس انٹرویو اور ڈاکٹر خان سے ملاقات کا تفصیلی احوال اپنی سوانح حیات (Beyond The Lines) میں بھی کیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ زیڈ اے بھٹو کے بعد ڈاکٹر خان پاکستان کی دوسری شخصیت تھے جن پر کئی غیر ممالک میں کئی کتابیں لکھی گئیں۔ مغربی ممالک میں انھیں ایک پُر اسرار اور اساطیری کردار کی حیثیت میں بھی یاد کیا جاتا تھا۔ یہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی وطن سے شدید محبت اور محنت کا نتیجہ تھا کہ بالآخر اسلامی جمہوریہ پاکستان 28 مئی 1998 کو عالمِ اسلام کی پہلی جوہری طاقت بن گیا۔ برملا ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو دُنیا کی جوہری طاقتوں میں شامل کرنے کا یہ اعزاز جناب میاں محمد نواز شریف کا مقدر بنا۔ پوری پاکستانی قوم وہ دُکھی لمحہ نہیں بھول سکتی جب ڈاکٹر خان صاحب کو، پاکستان کے ایک آمر کے جبریہ دَور میں، پی ٹی وی پر اپنے ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ایسا اقدام کر کے شاید ہمارے حکمرانوں نے اپنی جان عالمی قوتوں سے چھڑا لی ہو لیکن ذلت کا یہ لمحہ پوری پاکستانی قوم آج تک فراموش نہیں کر سکی۔ 
اور وہ لمحہ بھی ہمارے لیے شرمناک ہی تھا جب ڈاکٹر خان اسلام آباد کی ایک سڑک کے فٹ پاتھ پر بیٹھے، پاؤں میں معمولی سی چپل پہنے، ایک ٹی وی اینکر سے گفتگو کر رہے تھے۔ جبر کا یہ عالم تھا کہ محسنِ پاکستان کا چہرہ پاکستان کے کسی ٹی وی پر دکھایا جا سکتا تھا نہ اُن کی گفتگو سنائی جا سکتی تھی۔ اپنے محسنوں سے کوئی ایسا بھی کرتا ہے؟ لیکن ہمارے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں نے یہ انہونی بھی کر کے دکھا دی۔ اس جبریہ اور قہریہ ماحول میں محض سانسیں لیتے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو احساس ہو گیا تھا کہ اب وہ شاید زیادہ دنوں تک زندہ نہ بچ سکیں؛ چنانچہ انھوں نے ایک معاصر میں خود ہی اپنے بارے میں یہ الفاظ شایع کروا دیے تھے :’’میری وفات کے بعد پورے پاکستان کے ہر شہر، ہر گاؤں، ہر گلی کوچے میں آپ لوگوں نے میرے لیے جنازہ پڑھنا ہے اور دعائے مغفرت کرنا ہے‘‘۔ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اللہ کریم اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ ( آمین )۔
تنویر قیصر شاہد  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note · View note
emergingpakistan · 3 years
Text
اٹھائیس 28 مئی کا تاریخی دن
پاکستان نہیں‘ یہ بھارت تھا جس نے 1974 میں اپنے پہلے ایٹمی تجربے کے ذریعے اس خطے کے غیرمستحکم سکیورٹی ماحول میں نیوکلیئر معاملات کو شامل کیا‘ جسے مغرب کے کچھ لوگوں نے ''مسکراتا بدھا‘‘ کا نام دیا۔ یہ نیوکلیئر عدم پھیلائو کے معاہدے کے تحت قائم نظام کو پہنچنے والا حقیقتاً پہلا بڑا دھچکا تھا۔ اس کے بعد بھارت نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ دنیا نے بھارت کے دعووں میں چھپے اس فریب کو بھی جلد ہی دریافت کر لیا کہ نہرو کے دور میں اس کا جوہری پروگرام خصوصی طور پر پُرامن استعمال کیلئے تھا اور یہ کہ جوہری ہتھیاروں کا پروگرام شاستری حکومت نے 1964 میں چین کے پہلے ایٹمی تجربے کے بعد شروع کیا تھا۔ اب اس امر کے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں کہ نہرو کی منظوری سے بھارت اپنے سویلین جوہری پروگرام کے سٹرکچرل فریم ورک میں پہلے ہی خفیہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا تھا۔ سوویت یونین سمیت بڑی طاقتوں کی واضح اور خفیہ حمایت کے ساتھ، بھارت نے دھوکہ دہی سے‘ درپردہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کا پروگرام جاری رکھا۔ 
مغربی طاقتوں نے نیوکلیئر عدم پھیلائو کے اصولوں کا چنیدہ نفاذ کیا۔ پاکستان کیخلاف ان اصولوں کو بروئے کار لایا گیا جبکہ بھارت کے نیوکلیئر پھیلائو کو عملی طور پر نظرانداز کیا گیا۔ یہی وہ عامل ہے جس سے شہ پاکر بھارت نیوکلیئر عدم پھیلائو کے عالمی معیارات سے انحراف کا مرتکب ہوتا رہا۔ 1974 کے بھارتی ایٹمی تجربات‘ جو صحرائے سندھ میں پاکستان کی سرحد کے قریب کئے گئے‘ نے پاکستان کو مجبور کر دیا کہ وہ بھی نیوکلیئر صلاحیت حاصل کرے۔ پاکستان کو دہرے خطرے کا سامنا تھا۔ ایک طرف ہم بھارت کے ایٹمی عزائم کا سامنا کر رہے تھے جو پاکستان کی سلامتی اور بقا کیلئے براہ راست خطرہ تھے‘ دوسری طرف ''جوہری عدم پھیلاؤ‘‘ کے نام پر ہمیں دوستوں اور اتحادیوں کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کے پاس اپنی سلامتی کیلئے جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ 1968 میں جب ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے کو حتمی شکل دی جارہی تھی تو ہم نے اس کی حمایت کی تھی‘ تاہم ہم نے اس معاہدے پر دستخط اس لئے نہیں کیے تھے کہ بھارت نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا اور وہ ایٹمی ہتھیاروں کے اپنے بے لچک پروگرام پر عمل پیرا تھا۔ 
تب سے ایٹمی عدم پھیلاؤ کا ہر اقدام پاکستان نے کیا۔ 1974 میں ہم نے اس خطے میں ایٹمی پھیلاؤ کو روکنے کیلئے ایک بڑی سفارتی مہم چلائی تھی اور ایسی تجاویز پیش کی تھیں جن کا مقصد جنوبی ایشیا میں ایک غیرامتیازی نظام کے قیام کی کوشش تھا۔ ان میں بیک وقت این پی ٹی اور آئی اے ای اے کے سیف گارڈز سے وابستہ رہنے اور جنوبی ایشیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک زون قرار دینے جیسی تجاویز بھی شامل تھیں۔ ان تجاویز کو بھارت نے مسترد جبکہ عالمی طاقتوں نے نظرانداز کر دیا تھا۔ خدشات بے بنیاد نہیں تھے۔ بھارت نے مئی 1998 میں کئی ایٹمی تجربات کر کے این پی ٹی کے نظام کو ایک اور شدید دھچکا پہنچایا۔ مارچ 1998 میں برسراقتدار آنے کے فوراً بعد ہی بی جے پی کی حکومت نے ایٹمی آپشن استعمال کرنے اور جوہری ہتھیاروں کو فروغ دینے کے عزم کا اعلان کر دیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اپریل 1998 میں وزیر اعظم پاکستان نے جی ایٹ کے سربراہان مملکت و حکومت کے نام ایک خط میں ان کی توجہ بھارت کے خطرناک ایٹمی منصوبوں اور جوہری ہتھیاروں کی طرف مبذول کرائی تھی۔ ہمارے اس انتباہ پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔
گیارہ اور 13 مئی 1998 کو بھارت کے پانچ ایٹمی تجربات، جو ایک بار پھر ہماری سرحدوں کے قریب تھے، نے ہمارے خدشات کو مکمل طور پر درست ثابت کر دیا۔ ہم نے اس کا جواب فوراً نہیں دیا، حالانکہ ہمیں ایسا کرنے کا قانونی اور سیاسی حق حاصل تھا۔ بھارت نے ہمارے اس تحمل کا غلط نتیجہ اخذ کیا اور یہ تصور کیا کہ ہمارے پاس ایٹمی صلاحیت کبھی بھی نہیں تھی۔ بی جے پی کی حکومت اور اس کے قائدین نے دھمکی آمیز بیانات داغنا شروع کر دیئے۔ یہ بیانات ایٹمی بلیک میلنگ کی حد تک بڑھ گئے۔ اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی نے 20 مئی کو علی الاعلان کہا ''بھارت اپنی نئی طاقت کو استعمال کرنے سے نہیں ہچکچائے گا‘‘۔ اگلے ہی روز، انہوں نے دھمکی دی ''ہم نے پاکستان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے‘ ہمارے دھماکوں نے سقوط ڈھاکہ جیسی صورتحال پیدا کر دی ہے‘‘۔ یہ پریشان کن اور انتہائی غیرذمہ دارانہ بیانات تھے، چاہے وہ داخلی تناظر میں ہی کیوں نہ تھے۔ اس جارحانہ طرزِ عمل کے محرکات جو بھی ہوں، ہم تب جان چکے تھے کہ جنوبی ایشیا میں امن ایک نازک دھاگے سے لٹکا ہوا ہے۔ 
ہم نے دنیا کی توجہ بھارتی جنونیت کی طرف مبذول کرائی‘ لیکن کوئی ردعمل نہ آیا۔ درحقیقت، ہمیں مشورہ دیا گیا تھاکہ بھارت کا جواب نہ دے کر ''اعلیٰ اخلاقی بنیاد‘‘ حاصل کر لیں اور یوں ایٹمی عدم پھیلاؤ کے نام پر، آزاد قوم کی حیثیت سے قائم رہنے کا اپنا حق ضبط کروا لیں۔ فوری جواب نہ دینے پر بھارت میں ہمارے تحمل کا غلط مطلب اخذ کیا جا رہا تھا۔ بھارت کے ایٹمی تجربات کے بعد 17 روز تک ہم نے عالمی برادری کا انتظار کیا کہ وہ ایٹمی خطرات کے حوالے سے کچھ کرے۔ عالمی سطح پر کچھ ہوتا نظر نہ آیا تو پاکستان نے 28 مئی کو پانچ ایٹمی تجربات اور پھر 30 مئی کو مزید ایک ایٹمی دھماکا کیا۔ ہم ایسا نہ کرتے تو بھارت مہم جوئی کر سکتا تھا۔ اس اقدام نے ہمارے لئے کم سے کم قابلِ بھروسہ جوہری روک تھام کا بندوبست کر دیا تھا۔
کوئی شک نہیں کہ یہ ایک مشکل لیکن ناگزیر فیصلہ تھا‘ جس کیلئے رہنمائی ہمارے اہم قومی مفادات نے کی۔ توقع کے مطابق امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کی جانب سے منفی ردعمل آیا۔ بھارت کے ایٹمی تجربات پر ایسا ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔ ان ممالک کا خیال تھا کہ پاکستان ان کے سیاسی اور معاشی دباؤ میں آ جائے گا‘ لیکن پاکستان نے قومی مفادات کے تحت ایٹمی دھماکے کئے۔ جنوبی ایشیا میں ان ایٹمی تجربات پر بین الاقوامی برادری‘ خصوصاً بڑی طاقتوں کی جانب سے روایتی ردعمل 6 جون 1998 کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1172 کی صورت میں سامنے آیا۔ اس قرارداد میں ایٹمی تجربات کی مذمت کرتے ہوئے دونوں ممالک سے اپنی جوہری صلاحیتوں کو رول بیک کرنے، سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے، ایف ایم سی ٹی پر پیشرفت کرنے اور میزائل ڈلیوری سسٹمز پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ کونسل نے پاکستان اور بھارت پر زور دیا کہ زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور صورتحال کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے فوجی چالوں یا دیگر اشتعال انگیزی سے گریز کریں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایٹمی تجربات پر ترتیب وار پہلے بھارت اور پھر پاکستان کی مذمت کی گئی جو پاکستان کیلئے ایک اہم سفارتی کامیابی تھی‘ کیونکہ اس میں تسلیم کیا گیا تھا کہ ایٹمی تجربات پہلے بھارت اور پھر پاکستان نے کئے۔
اس طرح دنیا نے جوہری تجربات کرنے میں دونوں ممالک کے محرکات میں ایک تصوراتی فرق کو قبول کیا۔ بہرحال جوہری ہتھیار اب جنوبی ایشیا میں ایک حقیقت ہیں۔ عالمی برادری کیلئے ضروری یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے سٹریٹیجک تناظر کو سمجھے۔ بھارت کے ایٹمی تجربات نے خطے میں سکیورٹی کے ماحول کو غیرمستحکم کر دیا تھا جبکہ پاکستان کے ٹیسٹوں نے اس جوہری توازن کو بحال کیا۔ اب دونوں ممالک کو باہمی ضبط اور ذمہ داری کی ضرورت ہے۔ انہیں اب مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی تلاش کرتے ہوئے امن کو ایک موقع دینا چاہئے۔ اس سے انہیں موقع ملے گا کہ اپنے وسائل کو اپنے اپنے عوام کی فلاح و بہبود کیلئ�� وقف کر سکیں۔
شمشاد احمد
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)
بشکریہ دنیا نیوز
3 notes · View notes
pakistantime · 4 years
Text
پاکستان اور عالم اسلام کی موجودہ صورتحال
وطن عزیز پاکستان امت مسلمہ کی واحد ایٹمی قوت ہے۔ جس پر پوری امت مسلمہ کو فخر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین سے کشمیر تک ہر مظلوم وقت اضطراب میں پاکستان کی طرف ضرور دیکھتا ہے اور الحمدللہ اہل پاکستان ہر مرحلہ پر جس قابل ہیں عالمی قوانین کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 5 اگست 2019 کو ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کی قراردادوں کے برخلاف ایسا فیصلہ کیا جس سے پاکستان اور اہل کشمیر اضطراب میں آ گئے ، توقع تھی کہ ہندوستان کے اس قدم کے خلاف عالم اسلام مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی تائید میں کھڑا ہو جائے گا مگر بعض ممالک کے رویہ نے اہل کشمیر و پاکستان کو مایوس کیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس پر اگر نظر ڈالیں تو کچھ غلطیاں ہماری بھی ہیں اور کچھ حالات کی ستم ظریفی بھی ۔ 5 اگست کی بھارتی جارحیت کے بعد اسلامی تعاون تنظیم کی طرف سے مختلف مراحل پر پاکستان کے مؤقف کی تائید ہوتی رہی ہے اور جاری ہے، خود راقم الحروف سے OIC کے سیکرٹری جنرل نے ملاقات کے دوران یہ بات واضح طور پر کہی کہ OIC کسی بھی صورت کشمیر کے مسئلہ پر اپنے مؤقف میں تبدیلی نہیں لائی اور نہ ہی لائے گی اور یہی مؤقف مملکت سعودی عرب کا ہے۔ 
بد قسمتی سے سوشل میڈیا پر غلط بیانی کا ایسا سلسلہ چل نکلتا ہے کہ جس کو کوئی روک بھی لے تو وہ حقیقت تک پہنچتے ہوئے بہت ساری غلط فہمیاں پھیل چکی ہوتی ہیں ۔ پاکستان کا ایک بڑا مطالبہ اسلامی تعاون تنظیم OIC کے وزرائے خارجہ کا کشمیر کی صورتحال پر اجلاس ہے جس کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ سعودی عرب کی وجہ سے نہیں بلایا جا رہا ہے۔ حالانکہ اس میں اصل رکاوٹ کئی دوسرے ممالک ہیں سعودی عرب ہرگز نہیں۔ سعودی عرب نے ہمیشہ اور ہر مرحلہ پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور اس کی بہت ساری مثالیں سب کو معلوم ہیں۔ گزشتہ ایک سال کی صورتحال پر ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک ٹی وی پروگرام میں دواران گفتگو جذباتی انداز اختیار کرتے ہوئے سعودی عرب کے حوالے سے بعض ایسے کلمات کہے جو کسی بھی صورت مناسب نہیں تھے۔ 
شاہ محمود قریشی کے ان جملوں کے بعد سوشل میڈیا پر بیٹھے ماہرین سب و شتم نے ایسے ایسے فلسفے پیش کیے کہ الامان والحفیظ لیکن الحمدللہ وہ سب قوتیں جو اس صورتحال میں پاکستان اور عرب اسلامی دنیا کے تعلقات میں خرابی چاہتی ہیں ان کو اس وقت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جب پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید (جن کا دورہ سعودی عرب پہلے سے طے تھا) سعودی عرب پہنچے اور اس دورہ کے حوالے سے سعودی عرب کی وزارت دفاع اور نائب وزیر دفاع امیر خالد بن سلمان (جو کہ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کے بیٹے ہیں اور ولی عہد امیر محمد بن سلمان کے بھائی ہیں) کی طرف سے جاری کردہ سوشل میڈیا پیغام اور پریس ریلیز نے پاکستان سعودی عرب تعلقات کی وسعت اور مضبوطی کو سب پر ظاہر کر دیا۔ اگر یہاں میں پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف سعید المالکی کا ذکر نہ کروں تو بخل ہو گا کہ جنہوں نے صورتحال کو سنبھالا اس تاثر کو، جو ایک محدود طبقہ کی طرف سے پھیلایا جا رہا تھا کہ پاکستان سعودی عرب تعلقات میں کوئی دوری پیدا ہو گئی ہے ، دور کر دیا اور اسی طرح کی محنت پاکستان کے ریاض میں سفارتخانہ نے بھی کی۔ 
��عودی عرب کے ولی عہد امیر محمد بن سلمان کو صرف اس لیے ہدف بنایا جا رہا ہے کہ ان کا وژن 2030 مسلم امہ کو معاشی، اقتصادی اور دفاعی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا کر دے گا جو بہت ساری قوتوں کوقبول نہیں ہے ) پاکستان اور وزیر اعظم عمران خان سے ناراض ہیں اور پاکستان اور ترک، قطر، ایران تعلقات کا خاتمہ چاہتے ہیں، حقیقت حال اس کے برعکس ہے امیر محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان اس کا ثبوت تھا اور رہے گا۔ سعودی عرب کے ولی عہد کا پاکستان کی سر زمین پر یہ اعلان کہ وہ سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر ہیں اس محبت کا عملی ثبوت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے ان سے تعلقات ایک بھائی سے بھائی کی طرح ہیں، یہ بات ذہن میں رہے کہ سعودی عرب کی موجودہ قیادت عالمی حالات اور اسلامی دنیا کے حالات سے بہت باخبر ہے۔ سعودی عرب کے موجودہ وزیر خارجہ امیر فیصل اور ان کی ٹیم حقائق کا مکمل ادراک رکھتی ہے۔
حافظ محمد طاہر محمود اشرفی
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
لیبیا کے "ظالم ڈکٹیٹر" معمر قذافی کے عوام پر ڈھائے جانے والے "مظالم" کی تفصیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!۱۔ لیبیا میں بجلی مفت ہے، پورے لیبیا میں کہیں بجلی کا بل نہیں بھیجا جاتا۔۔۲۔ سود پر قرض نہیں دیا جاتا، تمام بینک ریاست کی ملکیت تھے اور صفر فیصد سود پر شہریوں کو قرض کی سہولت دیتے تھے۔۔۳۔ اپنا گھر لیبیا میں انسان کا بنیادی حق سمجھا جاتا تھا اور اس کے لئے حکومت شہریوں کو مکمل مالی مدد فراہم کرتی تھی۔۔۴۔ تمام نئے شادی شدہ جوڑوں کو اپنا نیا گھر بنانے کی مد میں حکومت پچاس ہزار ڈالرز مفت میں فراہم کرتی تھی۔۔۵۔ پڑھائی اور علاج کی سہولتیں لیبیا کے تمام شہریوں کو بنا پیسوں کے حاصل ہیں۔ قذافی سے پہلے 25 فیصد لوگ پڑھے لکھے تھے جبکہ آج 83 فیصد لوگ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں۔۔۶۔ کسانوں کو زرعی آلات، بیج اور زرعی زمین مفت میں فراہم کی جاتی تھی۔۔۷۔ اگر کسی باشندے کو لیبیا میں علاج معالجے یا تعلیم کی صحیح سہولت میسر نہیں تو حکومت بنا کسی خرچے کے بیرون ملک بھجواتی تھی۔۔۸۔ لیبا میں اگر کوئی شخص اپنی گاڑی خریدنا چاہتا ہے تو حکومت 50 فیصد سبسڈی فراہم کرتی تھی۔۔۹۔ پیٹرول کی قیمت 0.14$ فی لیٹر تھی۔۔۱۰۔ لیبیا پر کوئی بیرونی قرضہ نہیں اور لیبیا کے اثاثوں کی کل مالیت تقریبا 150$ ارب ڈالر سے زائد تھے، جن پر اب مغربی ممالک کا قبضہ ہے۔۔۱۱۔ اگر کوئی باشندہ گریجوایشن کرنے کے بعد بھی نوکری حاصل نہیں کر پارہا تو حکومت اسے اسکی تعلیمی استعداد کے مطابق مفت تنخواہ ادا کرتی تھی تا وقت کہ اس باشندے کی ملازمت لگ جائے۔۔۱۲۔ ملک کے تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک مخصوص حصہ تمام لیبیائی باشندوں کے بینک اکاؤنٹوں میں جمع کروا دیا جاتا تھا۔۱۳۔ ماں کو ہر بچے کی پیدائش پر حکومت کی طرف سے 5000$ ڈالر مفت فراہم کئے جاتے تھے۔۱۴۔ قذافی نے ملک کی صحرائی آبادی کے پیش نظر دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی دریا بنانے کا پروجیکٹ بھی شروع کیا تھا ، تا کہ پورے ملک میں صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔یہ ان مظالم میں سے کچھ کی تفصیل ہے جو قذافی نامی ڈکٹیٹر نے لیبیا کی عوام پر ڈھائے ۔ان مظالم کے علاوہ قذافی نے تین بہت بڑے گناہ اور بھی کیے تھے ۔پہلا کہ پاکستان کو ایٹمی پروگرام کے لیے 100 ملین ڈالر کی رقم اس وقت فراہم کی جب پاکستان پر ہر طرح کی پابندیاں تھیں ۔ اسی رقم سے پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا تھا ۔دوسرا اس نے ہمیشہ مسلمان ممالک کو اکھٹا کر کے انکا ایک بلاک بناے کی کوشش کی ۔ کبھی افریقی ممالک کا بلاک کبھی عرب ممالک کا ۔ لیکن ہمارے مسلمان ممالک قضافی کی اس " چال " میں نہیں آئے اور آپس میں ہی لڑنے مرنے پر متفق رہے ۔تیسری چیز میں تو اسنے حد ہی کر دی جب اس نے سونے اور چاندی کے سکوں میں لین دین کرنے کا فیصلہ کیا اور اعلان کیا کہ پیپر کرنسی جعلی کرنسی ہے ۔ان کے ان کرتوتوں کی بدولت ہی امریکہ نے قذافی کو قتل کروا دیا تاکہ لیبیا کے عوام کو ایک ظالم ڈکٹیٹر سے نجات دلائی جا سکے ۔اب لیبیا میں مکمل جمہوریت آچکی اور لیبیا جمہوریت کے مزے لے رہا ہے !!دوستوں کیساتھ ضرور شیر کریں . شکریہ
1 note · View note
weaajkal · 6 years
Photo
Tumblr media
پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور امریکی خدشات #Pakistan #America #AtomicProgram #Aajkalpk پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکی خدشات و الزام نئے نہیں، البتہ اس وقت امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا بیان دنیا کے سامنے پاکستانی موقف کو کمزور ثابت کرنے اور بھارتی حمایت کی ایک مذموم سعی دکھائی دیتا ہے۔ ایک انٹرویو میں پومپیو نے امریکی سلامتی کو درپیش پانچ بڑے خطرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے غلط ہاتھوں لگ جانے کا خدشہ، ان میں سے ایک ہے۔ پاکستان اور بھارت کی حالیہ کشیدگی پاکستان سے جانے والے دہشت گردوں کی وجہ سے شروع ہوئی، پاکستان کو ان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں دینا بند کرنا ہوگا۔ یاد رکھنا چاہئے کہ بھارت نے تقسیم ہند کے فوری بعد خطے کی تھانیداری کی کوشش شروع کردی تھی۔ عددی اعتبار سے دنیا کی تیسری بڑی فوج، چوتھی بڑی فضائیہ اور پانچویں بڑی بحریہ رکھنے والے ملک نے 1974میں پوکھران میں ایٹمی دھماکے کر ڈالے تو مجبوراً پاکستان نے بھی یہ صلاحیت بہت جلد حاصل کرلی ،تاہم اس کا اعلان 28مئی 1998کو چاغی میں دھماکوں سے کیا۔ رہی بات پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی تو یہ ایک کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے تحت ہمیشہ سے محفوظ ہاتھوں میں رہے ہیں، ایک باقاعدہ اور مربوط و منظم نظام ہونے کے باعث ہی اس حوالے سے کوئی بے احتیاطی کبھی سامنے نہیں آئی اور نہ آئے گی۔ پاکستان کا پروگرام پرامن مقاصد اور اپنے دفاع کیلئے ہے ۔ بالادست پارلیمان کے بے بس ارکان امریکہ کا اپنے حلیف ملک پر یہ الزام عائد کرنا صریح زیادتی ہے، اگرچہ امریکی توجہ اب بھارت کی طرف ہے جس سے وہ نیوکلیئر معاہدہ بھی کرچکا لیکن اسے پاک بھارت کشیدگی کے بارے میںغیر سنجیدہ بیان بازی سے گریز کرنا چاہئے کہ اس کا یہ عمل کشیدگی کو کم نہیں بلکہ زیادہ کرسکتا ہے۔ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے اور اس کا ثبوت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کی کامیابیاں ہیں۔ دنیا میں تباہی و بربادی کا باعث ہمیشہ دنیا کی بڑی طاقتوں کی دروغ گوئی اور دوغلا پن بنا،نہ کہ کسی ملک کی ایٹمی طاقت۔ امریکہ دنیا کو جائے امن بنانے کیلئے اپنا طرزِ عمل تبدیل کرے۔
0 notes