Tumgik
#gas crisis
shiningpakistan · 4 months
Text
بجلی، گیس کی قیمتیں اور عوام
Tumblr media
گزشتہ چند سال سے پاکستان کے عوام کو نا کردہ گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی بار بار ضرورت پڑ رہی ہے۔ بجلی اور گیس چوری کوئی اور کرتا ہے، نقصان حکومت کا ہوتا ہے اور پھر اس نقصان کا ازالہ بڑی آسانی سے کر دیا جاتا ہے، قیمتیں بڑھا کر۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو نقصان ہو تو بھی عوام ذمہ دار، حکومت کو نقصان ہو تو بھی عوام ذمہ دار۔ آخر کیوں ؟ پچھلے چند سال میں بجلی کا فی یونٹ 2 روپے سے 50 روپے تک پہنچ گیا ہے مگر پھر بھی بجلی کمپنیوں کا مالی خسارہ کم نہیں ہو رہا۔ فی یونٹ بجلی 100 روپے بھی ہو گئی تب بھی ان کمپنیوں کا مالی خسارہ کم نہیں ہو گا۔ لائن لاسز اور فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر حکومت اور یہ کمپنیاں عوام پر بوجھ ڈالتی ہیں۔ حکومت چاہے عمران خان کی ہو یا شہباز شریف کی، سب حکومتیں صرف بجلی مہنگی کرتی آئی ہیں۔ کسی حکومت نے بجلی چوری اور لائن لاسز کو ختم کرنے پر توجہ نہ دی۔ گیس کے شعبے میں بھی یہی مسئلہ رہا کہ حکومتیں بجائے گیس کی چوری پر توجہ دیتیں انھوں نے گیس مہنگی کرنے میں عافیت جانی ۔ 
چند دن پہلے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے اگلے مالی سال کیلئے دو پبلک یوٹیلیٹز کی آمدنی کی ضروریات کے پیش نظر SNGPL کی اوسط تجویز کردہ گیس کی قیمتوں میں 10pc اور SSGC میں 4pc کی کمی کی۔ اوسطاً، SNGPL صارفین کو اگلے مالی سال کے دوران 179.17 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کم ادا کرنا چاہیے، جبکہ ایس ایس جی سی کے صارفین کو 59.23 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کا ریلیف ملنا چاہیے۔ تاہم، جہاں ایس این جی پی ایل کے صارفین کا تعلق ہے ایسا نہیں ہو گا، کیونکہ حکومت ان سے 581 بلین روپے کا ٹیرف ڈیفرنس وصول کرنا چاہتی ہے جو گزشتہ چھ سال کے دوران انہیں نہیں دیا گیا۔ مالی سال 19 سے مالی سال 24 کے درمیان اوسط قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ایس این جی پی ایل کے مالی نقصانات کا اوگرا کا تعین، جسے حکومت نے سیاسی ردعمل کے خوف سے صارفین کو مکمل طور پر منتقل نہیں کیا، اگلے سال کمپنی کی گیس کی قیمتوں میں 100 فیصد تک اضافہ کرنے پر مجبور کر دے گا۔ 
Tumblr media
اس بات کے امکانات ہیں کہ حکومت مہنگائی سے متاثرہ گیس صارفین سے ایک سال میں پوری رقم وصول کرنے کے بجائے اسے چند سال میں پھیلا دے۔ ایک طرف حکمراں پہلے ہی نئے مالی سال سے گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے منصوبے تیار کیے بیٹھے ہیں دوسری طرف آئی ایم ایف بھی ڈو مور کا مطالبہ کر رہا ہے۔ عوام تو عوام صنعتکاروں کی بھی چیخیں نکل رہی ہیں۔ لگتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں آئی ایم ایف پوری کوشش کرے گا کہ بجلی اور گیس کی قیمتیں اتنی زیادہ کروانے میں کامیاب ہو جائے جس سے صنعتکار اپنے کارخانے بند کر دیں اور ہر طرف بھوک افلاس کے ڈیرے ہوں، جس سے کسی کو فائدہ ہو نہ ہو آئی ایم ایف اور ہمارے دشمنوں کو فائدہ ضرور ہو گا۔ ہمیں ہندوستان سے کم از کم یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس نے کس طرح آئی ایم ایف کے دروازے ہندوستان میں ہمیشہ کیلئے بند کیے۔ ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے مگر وہاں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان میں واجپائی ہو یا منموہن سنگھ یا پھر مودی سب کے سب عام آدمی تھے نہ کہ صنعتکار، چوہدری، سردار یا وڈیرے۔ 
انھیں اندازہ تھا کہ اگر ملک ہو گا تو وہ ہوں گے مگر ہمارے حکمرانوں کا تو سب کچھ ملک سے باہر ہوتا ہے لہٰذا انھیں کوئی فکر نہیں ہم غریبوں کی۔ پاکستان میں توانائی کی قیمتیں گزشتہ چند سال میں روزمرہ کی زندگی پر اتنی اثر انداز ہوئی ہیں کہ عام آدمی دو وقت کے کھانے سے بھی محروم ہو گیا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ جگہ جگہ خیراتی ادارے لوگوں کو کھانا کھلاتے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ مہنگائی میں کمی ہو رہی ہے۔ کمی مہنگائی میں نہیں ہورہی بلکہ کمی خریداری میں ہو رہی ہے، لوگوں کی قوت خرید ختم ہو چکی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اگلے مالی سال کے دوران یقینی ہے کیوں کہ بجلی اور گیس کمپنیوں کو اپنے اربوں روپے کے نقصانات پورے کرنے ہیں۔ حکومت نے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے اپنے منصوبے بھی آئی ایم ایف کو دے دیئے ہیں۔ اسکے علاوہ، حکومت کو اپنی آمدنی کو جی ڈی پی کے 1.5 فیصد تک بڑھانے کیلئے ٹیکسوں میں اضافہ کرنا ہو گا۔ ان اقدامات سے مہنگائی پھر بڑھے گی اور عوام پر مزید اخراجات کا بوجھ پڑے گا۔ ایسا نہ ہو کہ عوام کا صبر جواب دے جائے اور ملک میں مظاہرے شروع ہو جائیں۔ ضروری ہے کہ حکومت فی الفور بجلی اور گیس چوری پر قابو پائے کیونکہ پاکستان اب مزید مظاہروں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
محمد خان ابڑو
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 9 months
Text
کیا گیس کی قیمتوں کے حوالے سے سخت اقدامات کا وقت آگیا ہے؟
Tumblr media
پاکستان کیسے بحرانوں کی دلدل میں دھنسا جارہا ہے اس کی ایک اچھی مثال قدرتی گیس ہے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی یہاں وافر گیس بھی دریافت ہوئی جبکہ ملک کے ابتدائی سرکاری اداروں میں 1950ء میں بننے والی پاکستان پیٹرولیم بھی شامل تھی۔ ایک ایسا ملک جس کے پاس اپنے قیام کے وقت توانائی کے بہت کم ذرائع تھے اور عملی طور پر توانائی کی پیداواری صلاحیت تک موجود نہ تھی، ایسے میں پاکستان نے مقامی گیس کی وافر مقدار کو اپنے لیے بڑی پیمانے پر ایک صنعت کی بنیاد بنایا درحقیقت بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان کی سب سے پرانی کھاد بنانے والی کمپنی اینگرو نے 1960ء کی دہائی کے اوائل میں اس وقت کام کرنا شروع کیا جب اس کی پیرنٹ کمپنی ایسو، تیل دریافت کرنے کی کوشش کررہی تھی اور اس نے حادثاتی طور پر مری فیلڈز میں گیس دریافت کر لی۔ اس وقت مری فیلڈز ریگستان میں دور کہیں موجود تھی۔ چونکہ ایسو تیل کی کمپنی تھی اس لیے گیس کی دریافت ان کے کسی کام کی نہیں تھی، لہٰذا انہوں نے گیس کے ان ذخائر کو کچھ سالوں تک ایسے ہی چھوڑ دیا۔ چند سال بعد کسی کو خیال آیا کہ اس گیس کا استعمال کر کے کھاد بنائی جاسکتی ہے بس اس کے لیے حکومت سے مناسب قیمت کے لیے بات چیت کرنی ہو گی کیونکہ کھاد کی قیمتیں مکمل طور پر حکومتی کنٹرول میں ہوتی ہیں۔
یہ 1960ء کی دہائی کے وسط کی بات ہے جب ایسو فرٹیلائزر کا قیام عمل میں آیا جو کہ شاید اس وقت پاکستان کی دوسری کھاد بنانے والی کمپنی تھی۔ اس کے بعد سے اور بھی دریافتیں ہوئیں، دیگر کھاد کی کمپنیاں بھی وجود میں آئیں جن میں بالخصوص ’فوجی فرٹیلائزر‘ نمایاں ہے جو 1970ء کی دہائی کے اختتام پر قائم ہوئی۔ پہلے تھرمل پاور پلانٹس بھی 1970ء کی دہائی میں قائم ہوئے جس کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر پانی سے بجلی کی پیداوار کی صلاحیت بھی منگلا اور تربیلا ڈیم کی صورت میں سامنے آئی۔ یہ دونوں ڈیم 1960ء کی دہائی کے وسط سے 1970ء دہائی کے اواخر تک فعال ہوئے۔ اس سلسلے میں گڈو تھرمل پاور اسٹیشن سب سے بڑا اور پرانا پلانٹ تھا جس نے 1974ء میں کام کرنا شروع کیا، یہ مکمل طور پر قدرتی گیس پر چلتا تھا۔ یہ کندھ کوٹ میں واقع تھا جو کہ زیادہ آبادی والے تین شہروں کراچی، لاہور اور کوئٹہ سے قریب واقع تھا تاکہ یہ ان تینوں شہروں کو توانائی فراہم کر سکے۔ یہ پلانٹ اب بھی فعال ہے لیکن اس کے کمیشن ہونے کے بعد اس کے کچھ ٹربائنز کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔
Tumblr media
1990ء کی دہائی تک پاکستان میں دنیا کے بڑے پائپ گیس ڈسٹری بیوشن انفراسٹرکچر میں سے ایک موجود تھا، اس وقت تک کھاد کی تیاری اور توانائی کی پیداوار کے علاوہ پاکستان کے گھریلو صارفین کو بھی بڑی مقدار میں قدرتی گیس فراہم کی جاتی تھی۔ اس دوران دیگر صنعتی دعوے دار بھی پیدا ہوئے جیسے سیمنٹ اور ٹیکسٹائل کے شعبے جہاں خاص طور پر پروسیسنگ میں بوائلرز کو چلانے کے لیے گیس کو بطور ایندھن استعمال کیا گیا۔ یوں اس ملک میں گیس نے بنیادی ایندھن کی حیثیت اختیار کر لی۔ یہ بات بظاہر حیران کُن لگے لیکن ملک میں قدرتی گیس کی وافر مقدار نے دراصل ہمیں تیل کی قیمتوں کے ان مختلف بحرانوں سے محفوظ رکھا جن کا ان دہائیوں میں عالمی معیشت کو سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان 1970ء اور 2000ء کے اواخر میں آنے والے تیل کے بحران کی لپیٹ میں نہیں آیا۔ یہاں یہ ذکر صرف اس بات کی نشاندہی کے لیے کیا گیا ہے کہ اگر ملک میں قدرتی گیس کی فراہمی نہ ہوتی تو ملک ان سے کہیں زیادہ متاثر ہوتا کیونکہ قدرتی گیس نے ان بحرانوں کے اثرات کو کافی حد تک کم کیا۔
1980ء کی دہائی کے اوائل سے ہی یہ آگہی لوگوں میں پھیلنا شروع ہو گئی تھی کہ ملک میں گیس کی قیمتیں تبدیل ہونے والی ہیں اگرچہ ملک میں کوئی بھی اس پر عمل درآمد کے لیے تیار نہیں تھا۔ آئی ایم ایف قیمتوں کے تعین میں اصلاحات پر زور دے رہا تھا لیکن جنرل ضیاالحق کی حکومت تعمیل پر راضی نہیں تھی۔ اس حوالے سے دلائل پیش کیے گئے کہ اس سے خوارک کے تحفظ پر اثرات مرتب ہوں گے جو کہ آج ہم دیکھ بھی رہے ہیں۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں یہ آگہی زور پکڑ گئی اور ایک ایسے کمیشن کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد پورے پاکستان میں قیمتوں کو کنٹرول کرنا تھا۔ اس کمیشن کی سربراہی آفتاب غلام نبی قاضی نے کی جو کہ اس وقت سینیئر سرکاری افسر اور غلام اسحٰق خان کے قریبی دوستوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ان کی تعیناتی نے ظاہر کیا کہ حکومتِ وقت گیس کی قیمتوں کے حوالے سے اقدامات لینے کے لیے سنجیدہ ہے۔ کمیشن نے سب سے پہلے کھاد کی قیمتوں پر کام کیا جس کے بعد تیل، اور زرعی مصنوعات جیسے گندم اور کپاس پر بھی توجہ مرکوز کی۔
متعدد وجوہات کی بنا پر کمیشن کھاد کی قیمتوں کو ریگولیٹ نہیں کر پایا۔  مینو فیکچرز نے کہا کہ کھاد کی قیمت اس مطابق ہونی چاہیے جس پر نیا پلانٹ فعال ہو سکے۔ کمیشن نے دیکھا کہ کھاد کا براہِ راست تعلق گیس سے ہے اور غذائی اشیا کی قیمتوں پر بھی کھاد کی قیمت اثرانداز ہوتی ہے، تو گویا کھاد اہم ہے کیونکہ اس کے دیگر اشیا کی قیمتوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کھاد کی قیمتوں کو مکمل طور پر کنٹرول میں رکھا جاتا ہے۔ پھر ساتویں پانچ سالہ منصوبے میں یہ بات سر اٹھانے لگی کہ پاکستان کے گیس کے ذخائر ختم ہونے والے ہیں اور کوئی نئی دریافت بھی نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہی ہونے کا امکان ہے۔ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں پیش گوئیاں سامنے آئیں کہ پاکستان کے گیس فیلڈز 2008ء یا 2010ء کے قریب ممکنہ طور پر کمی کے دور میں داخل ہو جائیں گے۔ بنیادی طور پر گیس پر انحصار نہ کرنے والی صنعتوں کی تعداد دیکھتے ہوئے اور زراعت و خواراک کی پیداوار پر اس کے اثرات کی وجہ سے یہ تباہی کی پیش گوئی کے مترادف تھا۔
منصوبے میں خبردار کیا کہ اس تباہی سے بچنے کے لیے اقدامات لینا شروع کرنا ہوں گے۔ گیس کی دریافت کی کوششیں تیز کریں، کھپت کو کم کریں اور سب سے بڑھ کر قیمتوں میں اصلاحات لے کر آئیں۔ لیکن ان میں سے کوئی اقدامات نہیں لیے گئے۔ قیمتوں کا یہی نظام برقرار رہا۔ ایسی کوئی قابلِ ذکر دریافت نہیں ہوئی جوکہ ذخائر کم ہونے کی پیش گوئی کو غلط ثابت کر سکتی۔ کھپت کم کرنے کے بجائے 2000ء کی دہائی کے اوائل میں جنرل پرویز مشرف نے ایک نیا سیکٹر متعارف کروایا جہاں گھریلو گیس کو گاڑیوں کے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ اس کے فوراً بعد خاص طور پر ٹیکسٹائل کی صنعت میں کیپٹیو پاور بھی سامنے آئی۔ متوقع طور پر 2010ء سے قدرتی گیس کے ذخائر میں کمی آنا شروع ہوئی۔ 5 سال بعد 2015ء میں تاریخ میں پہلی بار پاکستان نے گیس کی درآمدات کا آغاز کیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ملک میں گیس کی کل طلب کا تقریباً حصہ درآمد کیا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قیمتیں مکمل طور پر بین الاقوامی مارکیٹ کے مطابق ہوتی ہیں۔ تو اب ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ہمیں گیس کی قیمتوں کے حوالے سے سخت اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ سال ہم نے گیس کی قیمتوں میں ایک بڑا اضافہ دیکھا۔ رواں سال بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ شاید اگلے سال اس سے زیادہ اضافہ ہو۔ جب آپ ایک مقام پر ٹھہرے رہتے ہیں اور اصلاحات لے کر نہیں آتے تو ہمیں ایسی ہی کسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خرم حسین  
یہ مضمون 21 دسمبر 2023ء کو ٖڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
falling-mellow · 2 years
Text
Hooray for the weather getting colder but hardly being able to get a warm house or shower bc SOMEONE🤫 thought it was a great👍 idea to give us a gas crisis/shortage just when the cold Autumn/Winter weather's about to come in 👍😀
Hello my name is I.M. Cold, how you do? 🤝
0 notes
chrliekclly · 6 months
Photo
Tumblr media Tumblr media
if u watch fr long enuf their movements will sync up
494 notes · View notes
olowan-waphiya · 1 month
Text
Tumblr media
1 hr (gas) lawn mower use = driving 300 miles from LA to Vegas
1 hr (gas) leaf blower use = driving 1100 miles from LA to Denver
This is because while gas efficiency has improved leaps and bounds for cars, the motors used in lawn mowers and leaf blowers have not changed much in the last 50 years. leaf blowers also blast other forms of particulate matter around, adding immensely to air pollution.
as long as they arent in the walkway, feel free to leave the leaves as they are free compost and protection for insects.
procrastinate mowing as long as you can—use an electric one if you must (many cities are starting to do rebates or replacements). and you can similarly leave the grass clippings as compost.
225 notes · View notes
macden · 1 year
Text
Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media
878 notes · View notes
dailydccomics · 24 days
Text
Tumblr media
Zatanna and Green Arrow by Cliff Chiang
126 notes · View notes
reasonsforhope · 11 months
Text
"The prospects of the world staying within the 1.5C limit on global heating have brightened owing to the “staggering” growth of renewable energy and green investment in the past two years, the chief of the world’s energy watchdog has said.
Fatih Birol, the executive director of the International Energy Agency, and the world’s foremost energy economist, said much more needed to be done but that the rapid uptake of solar power and electric vehicles were encouraging.
“Despite the scale of the challenges, I feel more optimistic than I felt two years ago,” he said in an interview. “Solar photovoltaic installations and electric vehicle sales are perfectly in line with what we said they should be, to be on track to reach net zero by 2050, and thus stay within 1.5C. Clean energy investments in the last two years have seen a staggering 40% increase.” ...
The IEA, in a report entitled Net Zero Roadmap, published on Tuesday morning, also called on developed countries with 2050 net zero targets, including the UK, to bring them forward by several years.
The report found “almost all countries must move forward their targeted net zero dates”, which for most developed countries are 2050. Some developed countries have earlier dates, such as Germany with 2045 and Austria and Iceland with 2040 and for many developing countries they are much later, 2060 in the case of China and 2070 for India.
Cop28, the UN climate summit to be held in Dubai this November and December, offered a key opportunity for countries to set out tougher emissions-cutting plans, Birol said.
He wants to see Cop28 agree a tripling of renewable energy by 2030, and a 75% cut in methane from the energy sector by the same date. The latter could be achieved at little cost, because high gas prices mean that plugging leaks from oil and gas wells can be profitable...
He also called for Cop28 to agree a doubling of energy efficiency. “To reduce fossil fuel emissions, we need to reduce demand for fossil fuels. This is a golden condition, if we are to reach our climate goals,” he said.
Birol stopped short of endorsing the call that some countries have made for a full phase-out of fossil fuels by 2050 to be agreed at Cop28, but he said all countries must work on reducing their fossil fuel use."
-via The Guardian, September 26, 2023
423 notes · View notes
wachinyeya · 5 months
Text
156 notes · View notes
feckcops · 1 year
Text
The public wants to save the planet – as long as it doesn’t personally inconvenience them
“Back in July, Just Stop Oil (JSO) experienced something unusual – they found they were the ones being protested. An alternative group called Just Stop Pissing People Off attempted to block Just Stop Oil from engaging in disruptive protests and interrupted their events, saying that the climate crisis is real but that JSO is distracting and alienating people. The counter-protests tell us a great deal about Britain’s contradictory attitude to the climate crisis.
“Broadly, Brits understand that the climate crisis climate change is a major problem. 65% of us are worried about the climate crisis (versus just 28% who aren’t) while the same proportion supports the government’s aim of reducing Britain’s net carbon emissions to zero by 2050 ... Eight in 10 back more tree planting, subsidies for energy-efficient homes and higher taxes for high-carbon companies. 62% would support a requirement for all energy production to come from renewable sources. But this enthusiasm has its limits.
“When asked if they would back policies that would impose limits on what they personally can do, Brits quickly turn against them. For instance, two-thirds oppose the idea of a limit on how much meat they can buy, and a majority oppose banning petrol and diesel cars ... Even though 62% of voters back the idea of requiring all energy to be renewable, just 39% want to ban new North Sea oil fields, and a mere 32% want to prohibit the sale of gas boilers ...
“The British public is not as supportive of action on the climate crisis as many environmentalists would hope. We favour general, uncontentious ideas – net zero, tree-planting, tax rises on high-carbon companies – but when asked for our opinion on a climate policy that would directly affect us personally, we baulk. This is partly due to worries about the cost of living, but it’s also about avoiding personal inconvenience.
“Just Stop Pissing Everyone Off perfectly encapsulates the British attitude to the climate crisis: sure, it’s a problem, but not ours. As Homer Simpson once asked: ‘Can’t someone else do it?’”
286 notes · View notes
Photo
Tumblr media Tumblr media Tumblr media
hey
based on this
564 notes · View notes
khytal · 8 months
Text
Tumblr media
kiwyu
132 notes · View notes
charliework16 · 1 year
Text
Tumblr media
business legends
304 notes · View notes
todayisafridaynight · 6 months
Text
Tumblr media
2024 redraw
2022 ver below
Tumblr media
96 notes · View notes
cankersaurus · 10 months
Text
Tumblr media
Weird that ive never seen content of denis and charlie drawing eachpther
96 notes · View notes
dailydccomics · 2 months
Text
Tumblr media
lol she's so nonchalant like yeah whatever its me
94 notes · View notes