Text
i keep thinking about that tribe of baboons where all the alpha males died from eating poison garbage and then the baby boy monkeys were taken care of by the lady monkeys and never got socialized to be aggressive so they all just live peacefully and groom eachother instead of fighting and killing eachother and its been generations of that, it only took 1 wipeout of the aggressive males to change the whole social order of the species i am crying they must be so much happier
395K notes
·
View notes
Text

One lake; a many bodies of water. Fluctuation through the shores! Wave-crashing, like breathing of a giant! Another; an empty lake, devoid of life, like an upright shell with nothing inside it.
#since you've been gone#boys#life#me#my life#young writer#blogger#depressing quotes#follow for follow#follow me#handsome#love#pakistan#pakistanifashion#pictures#self love#writers#writing#young
2 notes
·
View notes
Text

this is the money dog, repost in the next 24 hours and money will come your way!!
3M notes
·
View notes
Photo
I had witnessed this just a week ago and that too in Pakistan. See the impact. Amir has always been the best.
543K notes
·
View notes
Text
سقراط کی فکر
سقراط 469 ق م میں ایک معمولی گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ سنگ تراش تھا اور ماں دائی تھی۔ اس نے کہاں سے تعلیم حاصل کی اس کا کچھ پتہ نہیں۔ تاہم وہ اپنے پہلے فلاسفہ کی تعلیمات سے آگاہ تھا۔ وہ ہر وقت غور وفکر میں کھویا رہتا اور سوچتا رہتا کہ صداقت کیا ہے ؟ اچھائی کیا ہے؟ وہ روزانہ شہر کے بازار کے کسی کونے میں جا کھڑا ہوتا اور جب کوئی اس سے سوال کر بیٹھتا تو وہ بحث کے عنوان پیدا کر لیتا اور پھر ایک کے بعد دوسرا سوال کر کے مخاطب کو یہ احساس دلاتا کہ وہ کیسے کیسے مغالطوں اور الجھنوں میں مبتلا ہے۔ اواخر عمر میں اس نے ایتھنز کے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا کام سنبھال لیا۔
وہ اپنی باتوں میں انہیں اہم سیاسی اور عمرانی مسائل کی طرف توجہ دلاتا رہتا۔ وہ بہت منکسرمزاج تھا اور اکثر کہا کرتا تھا کہ ’’مجھے تو صرف اتنا معلوم ہے کہ مجھے کچھ بھی معلوم نہیں‘‘ ۔ وہ احتساب نفس اور شعور ذات کو ضروری سمجھتا تھا۔ اس کا قول ہے: ’’جو شخص اپنی زندگی کا جائزہ نہیں لیتا اور اپنے نفس کا احتساب نہیں کرتا وہ زندہ رہنے کے لائق نہیں ہے‘‘۔ ایتھنز کے نوجوان سقراط کے شیدائی تھے اور اس سے فیض حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ اس کے ساتھ ساتھ رہتے ۔ ان میں امرا اور روسا کے بیٹے بھی شامل تھے، جن میں افلاطون، القی نائدیس اور ��ٹائی فس نامور ہوئے۔ سقراط کے اپنے قول کے مطابق وہ فلسفی اس لیے بنا کہ سو فسطائیون کے نظریات کا مقابلہ کر سکے۔ 399ق م میں اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ نوجوانوں کے اخلاق خراب کر رہا ہے اور اس نے نیا دیوتا بنا لیا ہے۔
اس ناواجب الزام کی اصل وجہ یہ تھی کہ پیلو پونیسین جنگ میں ایتھنز کو شکست ہوئی تھی۔ غصے میں آکر ایتھنز والے سقراط کے خلاف ہو گئے، اس لیے کہ خواص کے طبقے کے ساتھ اس کے تعلقات تھے جن میں غدار القی بائدیس بھی شامل تھا۔ نیز سقراط لوگوں کے عام عقائد پر تنقید کرتا رہتا تھا۔ اس بات کی شہادت بھی ملتی ہے کہ وہ جمہوریت کی مذمت کرتا تھا اور کہتا تھا کہ سوائے اہل عقل و دانش کی حکومت کے اور کوئی حکومت اس قابل نہیں ہے کہ اسے حکومت کہا جائے۔ چونکہ سقراط نے خود کچھ نہیں لکھا تھا اس لیے اس کی تعلیمات کاٹھیک ٹھیک تعین کرنا مشکل ہے۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ اخلاقیات کا درس دیتا تھا اور تجریدی فلسفے میں اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
افلاطون کی بعض تحریروں سے امکان کا نشان ملتا ہے کہ اس کے نظریہ امثال (آئیڈیاز) کی ابتدا سقراط سے ہوئی تھی۔ بہرحال اتنی بات تو یقینی ہے کہ سقراط ایک متوازن اورکلی طور پر صحیح اور مؤثر علم میں یقین رکھتا تھا۔ جو باہمی مکالمے اور آرا و افکار کے تبادلے اور تجزیے سے حاصل ہو سکتا تھا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے زیربحث امر کی کچھ عارضی اور وقتی تعریف کی جائے اور پھر پوری طرح چھان پھٹک اور بحث و مباحثے کے بعد ایسی صداقت تک پہنچا جائے جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ اسے یقین تھا کہ جب زندگی گزارنے کے لیے اس طرح کے عقلی اصول اور قاعدے دریافت کر لیے جائیں تو ان کے بل بوتے پر ایک پاک صاف زندگی گزاری جا سکتی ہے اور وہ اس بات سے انکار کرتا تھا کہ اگر ایک شخص کو نیکی کا صحیح علم ہو جائے تو وہ پھر بھی برائی کا راستہ اختیار کرے گا۔
سقراط نے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا دفاع ضرور کیا۔ لیکن اس کو جو موت کی سزا دی گئی تھی اس نے اسے بھی قبول کر لیا۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق سقراط کے شاگردوں نے یہ کوشش کرنی چاہی کہ دروغہ زندان کو کچھ دے دلا کر سقراط کو زنداں سے بھگا لے جائیں۔ لیکن اس نے بھاگ جانے سے صاف انکار کر دیا اور زہر کا پیالہ پی کر پورے سکون کے ساتھ موت کی آغوش میں سو گیا۔ سقراط کی ذات سے فلسفے کی تین تحریکوں نے جنم لیا جو بعض مسائل میں ایک دوسرے کی متضاد ہیں۔ کلبیت (سینی سیزم)، لذتیت (ایپی کیورین ازم) اور مثالیت (آئیڈیل ازم) ۔ ان میں سے پہلی دو تحریکوں کا ذکر آگے آئے گا۔ مثالیت پسندی کے بارے میں اختلاف رہا ہے کہ اس کا بانی سقراط کو سمجھا جائے یا افلاطون کو ۔ سقراط نے اپنی کوئی تصنیف نہیں چھوڑی۔ اس کے منتشر افکار افلاطون یا زینوفون کے یہاں ملتے ہیں۔
بعض اہل رائے کہتے ہیں کہ افلاطون نے اپنے استاد کے خیالات ہی کو اپنے مکالمات میں جوں کا توں قلمبند کیا ہے۔ دوسرے لوگ اس سے پوری طرح اتفاق نہیں کرتے ۔ بہر حال یہ خیال کوئی ایسا غلط نہیں ہے کہ افلاطون کی مثالیت پسندی کے پیچھے سقراط کی شخصیت اور اس کی تعلیمات کا بڑا ہاتھ ہے۔ سب سے پہلے سقراط نے ہی دعویٰ کیا کہ کسی چیز کی کنہہ کو سمجھنے کے لیے اس کی حقیقت کو ٹھیک طرح سے بیان (define) کرنا بہت ضروری ہے۔ سقراط کے نزدیک یہ کام صرف عقل ہی کر سکتی ہے۔ اس طرح کی تعریف کو اس نے کانسپٹ کا نام دیا۔ یہ نظریہ بہت انقلاب پرور ثابت ہوا۔ افلاطون نے اس پر اپنے نظام فلسفہ کی بنیاد رکھی اور بعد میں یہ تمام مثالیت پسندوں کے لیے اصول بن گیا۔ سقراط نے کہا کہ یہ کائنات بے مقصد نہیں ہے جیسا کہ مادیت پسند کہتے ہیں۔ اس نے کہا عدل کسی خاص طبقے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں معاشرے کے تما م طبقات برابر شریک ہیں۔ اس نے ایک قسم کے اشتمالی معاشرے کا تصور پیش کیا جس میں ہر فرد اپنی قدرتی صلاحیتوں کی نشوونما اور تکمیل کے لیے زندگی گزارے اور ذاتی مفاد پر جماعت کے مفاد کو مقدم رکھے۔
محمد کاظم
7 notes
·
View notes
Text
I miss being sad in love
#since you've been gone#writinglife#writer#young writer#spilled ink#spilled words#my words#my writing#wordsnquotes
4 notes
·
View notes
Text

These waters has my whole childhood written over it. I can see myself as a child spending half the summer day in this river, swimming, puffing off my shalwar as a life saving tube, covering our bodies with the side mud, making bets as who could spend more time inside the water and cover a large area (i remember how i would cheat by going a bit far the area i covered when the other person would jump) and playing different games like kabaddi and hide & seek (we wuld play hide and seek in the waters too.. like one wuld be called a theif and others would jump into the river. The person who was tagged as a theif would catch them in the water. Anyone whom he caught wuld be labeled as a theif and thus the whole process would take the same turn again)..
Life was so fair at that time. Everything seemed perfect. 'Worry' was a word unknown to us. 'Pain' was perceived to be physical only and 'love' had no proper understanding yet it existed everywhere.
#since you've been gone#past days#memories#biographies & memoirs#my life#childhood#self love#follow for follow#follow me
0 notes
Text
LIFE NEEDS SOME DEATHS. TIRED OF LIVING IT.
2 notes
·
View notes
Video
youtube
Because when we are free to move, anything is possible. Please watch once.
0 notes
Text
i’m terrified. having this light feeling – being optimistic and jolly for consecutive days. the theory that bad days and shitty things will happen after that. but hey, i should stop thinking too much and just appreciate ppl who are still here and those who really SEE ME.
3 notes
·
View notes
Photo
Stop honour killing you assholes!
Azeem Khan about his daughter, Qandeel Baloch.
Qandeel Baloch ‘honour killing’ documentary link: https://www.youtube.com/watch?v=oSvXrSSiWJo
502 notes
·
View notes
Photo




To all the hatemongers with love😍 !
1 note
·
View note
Photo

Some fierceness please!!!
2 notes
·
View notes