Text
امتحان لینے والوں کو پہلے خود ٹیسٹ پاس کرنا ہوگا
( فاران خان) کراچی میں امتحان لینےوالوں کو پہلے خود ٹیسٹ پاس کرنا ہوگا،وزیر جامعات وبورڈز نے نوٹیفیکیشن جاری کردیا۔ تفصیلات کے مطابق سندھ کے تعلیمی بورڈز کے اعلیٰ افسران کو ٹیسٹ دینا ہو گا، بورڈ چیئر مین،کنٹرولر،سیکریٹریز کو تحریری ٹیسٹ دینا پڑےگا۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق گریڈ 19 اور 20کے افسران کا ٹیسٹ 3 اور 4 نومبر کو ہوگا جبکہ سندھ کے 8 بورڈز کے چیئر مینز کیلئے 2017 امیدوار میدان میں آگئے ،…
0 notes
Text
شوٹرزبابا صدیقی کو مارنے سے پہلے کیا پیتے رہے؟مقتول کےآخری الفاظ کیا تھے؟جانیے
ممبئی (ڈیلی پاکستان آن لائن)بھارت کے شہر ممبئی میں قتل ہونے والے مسلم سیاستدان بابا صدیقی کے قتل کی تحقیقات جاری ہیں۔ بھارت کے مسلم سیاستدان بابا صدیقی کو 12 اکتوبر کو ممبئی کے علاقے باندر�� میں ان کے بیٹے ذیشان صدیقی کے دفتر کے باہر گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔پولیس نے ان کے قتل کے الزام میں 4 افراد کوگرفتار کیا ہے جبکہ بشنوئی گینگ نے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ بھارتی میڈیا نے بابا صدیقی…
0 notes
Text
شمالی کوریا کے کم نے متوقع فوجی پریڈ سے پہلے فوج کی تعریف کی۔ جوہری ہتھیاروں کی خبریں۔
کم نے شمالی کوریا کی فوج کے قیام کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر اپنی بیٹی کے ساتھ فوجی حکام سے ملاقات کی۔ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے اپنی جوہری مسلح افواج کی “ناقابل مزاحمت قوت” کی تعریف کی ہے کیونکہ انہوں نے اپنی فوج کے قیام کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر تقریبات کے دوران اپنی بیٹی کے ہمراہ فوجی حکام کا دورہ کیا۔ یہ دورہ اور فوجی حکام سے خطاب ایسے اشارے کے درمیان سامنے آیا ہے کہ شمالی کوریا…
View On WordPress
0 notes
Text
پہلے پاکستانی بیٹر 88 سال کی عمر میں انتقال کرگئے
ٹیسٹ ڈیبیو پر سنچری بنانیوالے پہلے پاکستانی بیٹر 88 سال کی عمر میں انتقال کرگئے سابق پاکستانی آل راؤنڈر خالد عباد اللہ کی عمر 88 سال تھی۔خالد عباد اللہ نیوزی لینڈ میں مقیم تھے۔خالدعباد اللہ نے 1964 تا1967 4 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ خالد عباد اللہ ٹیسٹ ڈیبیو پر سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی بیٹر تھے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے خالد عباد اللہ کے انتقال پر اظہار تعزیت
0 notes
Text
بہت سال پہلے کی بات ہے ایک گاؤں میں ایک لڑکی تھی، دوسرے بچوں کی طرح اس کو بھی کھیل کود میں بہت مزہ آتا تھا
1 note
·
View note
Text
روزہ افطار کی دعا کس وقت پڑھنی چاہیے افطار سے پہلے یا بعد؟
روزہ افطار کی دعا کس وقت پڑھنی چاہیے افطار سے پہلے یا بعد؟
روزہ افطار کی دعا کس وقت پڑھنی چاہیے افطار سے پہلے یا بعد؟ کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ افطاری کی دعا کس وقت پڑھنی چاہیے افطاری کرنے سے پہلے یا کہ افطاری کرنے کے بعد ،ہمارے یہاں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ افطاری سے پہلے پڑھنی چاہیے اور کچھ کا کہنا ہے کہ بعد میں، قرآن کریم سے اور احادیث مبارکہ سے واضح طور پر بیان فرمائیں. محمد اسلم رضا تھنہ منڈی راجوری الجواب بعون…
View On WordPress
#aftar ki dua kab padhna chahiye#افطار کی دعا افطار سے پہلے یا بعد میں#افطار کی دعا کب پڑھنا چاہئے#روزہ افطار کی دعا کس وقت پڑھنی چاہیے افطار سے پہلے یا بعد؟
0 notes
Text
کسی کو کچھ بھی دینے سے پہلے کوشش کیجئے دوسروں کے ہاں اسکی قیمت معلوم کر لیا کیجئے
Before giving anything to anyone, try to find out its. value from others
31 notes
·
View notes
Text
کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام ک��یں گے اور زیادہ تر کام م��ض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔ 1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ کے مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔
جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘ ’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘ سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔ دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طرف جانا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔
مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے لیے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملا دیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔ فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہو گی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سوال پر دنیا کا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔ اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔ مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بات کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔ تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت ��ی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘ لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہو گی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔ لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔ لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اینڈریو گرفن
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
38 notes
·
View notes
Text
پہلے رگ رگ سے مری خون نچوڑا اس نے
اب یہ کہتا ہے کہ رنگت ہی مری پیلی ہے
مظفر وارثی
7 notes
·
View notes
Text
وزیر اعلیٰ مریم نواز کا پہلے سرکاری کینسر ہسپتال کاافتتاح،لیول 3 اور 4 مریضوں کا مفت علاج ہوگا
(24نیوز) وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پہلی اینٹ رکھ کر پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اور پہلا سرکاری کینسر ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھ دیا، کینسر کے لیول تھری اور لیول4مریضوں کا بھی مفت علاج ہوگا۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز نے کینسر ہسپتال کے پہلے فیز کی تکمیل کے لئے 12ماہ کا ہدف دیدیا،وزیر اعلیٰ مریم نواز نے پہلے سرکاری بون میرو ٹرانسپلانٹ بھی بنانے کا اعلان کیا، وزیر اعلیٰ مریم نواز نے ہسپتال کے…
0 notes
Text
صبح جاگ کر سب سے پہلے موبائل فون استعمال کرنا صحت کے لیے کتنا نقصان دہ؟
(ویب ڈیسک) موجودہ دور میں موبائل فون کا استعمال اس قدر بڑھ گیا ہے کہ انسان ہر چند لمحوں بعد موبائل فون کی سکرین دیکھتا رہتا ہے اور دور جدید میں یہ رحجان مزید بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ انسانی زندگی کے زیادہ تر کام اس سے منسلک ہے، مشینوں نے ایک طرف اگر انسانی زندگی میں آسانیاں پیدا کی ہیں تو وہی پوشیدہ طور پر انسان کو نقصانات بھی پہنچاتے ہیں۔ یوں تو ٹیکنالوجی کو انسان کی زندگی آسان بنانے کے لیے…
0 notes
Text
میں تو آئینے میں خود کو تک کر حیران ہوا
یہ چہرہ کچھ اور طرح تھا پہلے کسی زمانے میں 🥀
7 notes
·
View notes
Text
کیا پاکستان میں وقت سے پہلے الکیشن کا انعقاد ہو سکتا ہے؟
پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات 2024 میں مبینہ دھاندلی کی بنیاد پر حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں ملک میں نئے انتخابات کروانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔چار سیاسی جماعتوں کی جانب سے ملک میں نئے انتخابات کروائے جانے کے مطالبے کے بعد یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا ملک میں نئے انتخابات کا ماحول بن سکتا ہے؟اس بارے میں سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کی جانب سے نئے انتخابات کا مطالبہ کوئی نئی بات نہیں۔…
0 notes
Text
فلک میں آگ لگ جاتی جو دونوں روبرو ہوتے
غروبِ شمس لازم تھا طلوعِ چاند سے پہلے
Falak mai aag lag jati jo dono ro-baroo hotay
Ghuroob-e-shams lazim tha tuloo-e-chaand se pehle
#اردونامہ#اردو شاعری#اردو زبان#غزل#desi tumblr#desi larki#just desi things#desi academia#life of a desi girl#pakistan#urdu aesthetic#urdu stuff#pakistani aesthetics#urdu love#urdu sher
50 notes
·
View notes