Tumgik
#جیل
googlynewstv · 2 months
Text
عمران خان سے جیل میں کس کس نے ملاقات کی ؟تفصیلات جاری
 بانی پی ٹی آئی عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کرنیوالوں کی تفصیلات سامنے آگئیں۔  جیل حکام کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان نے ستمبر 2023 سے جولائی 2024 تک کل 1635 افراد سے ملاقاتیں کی۔بانی پی ٹی آئی عمران خان سے کمرہ ملاقات میں 454 ملاقاتیں ہوئی۔ملاقاتوں میں 88 وکلاء، 223 سیاسی دوست، 119 فیملی اور 14  اسپیشل ڈاکٹر شامل ہیں۔راولپنڈی عدالت میں بانی پی ٹی آئی سے 1181 ملاقاتیں ہوئیں،جن میں…
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
ہانگ کانگ کی عدالت نے تیانان مین کے 3 چوکس منتظمین کو جیل کی سزا سنائی | سیاست نیوز
چین کے 1989 کے تیانان مین اسکوائر کے خونی کریک ڈاؤن کے موقع پر سالانہ نگرانی کے تین منتظمین کو ساڑھے چار ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ ہانگ کانگ کے ایک گروپ کے تین سابق ارکان جس نے چین کے 1989 کے تیانان مین اسکوائر قتل عام کے موقع پر سالانہ نگرانی کا اہتمام کیا ہے، کو بیجنگ کے نافذ کردہ قومی سلامتی کے قانون کے تحت معلومات کی درخواست پر عمل نہ کرنے پر ساڑھے چار ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ہانگ کانگ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdu-e24bollywood · 2 years
Text
چمکتے ہوئے بے داغ چھیدوں اور جلد کی ضرورت ہے، پھر اس طرح شام کا جیل بنائیں
چمکتے ہوئے بے داغ چھیدوں اور جلد کی ضرورت ہے، پھر اس طرح شام کا جیل بنائیں
خود ساختہ نائٹ ٹائم جیل: کوئی ایسا نہیں ہے جسے خوبصورت نظر آنے کی ضرورت نہ ہو، اور اس کے لیے لوگ یہ نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کی کوششیں کرتے ہیں۔ لڑکیاں چمکدار اور بے داغ چھیدوں اور جلد کی ضرورت میں پارلر میں گھنٹوں گزارتی ہیں اور اس کے لیے وہ کچھ بھاری رقم بھی خرچ کرتی ہیں۔ تاہم اس سے قطع نظر کوئی خاص منافع نہیں ہے۔ لوگ اس کے علاوہ خوبصورت اور بے داغ چھیدوں اور جلد کے لیے بہت سے قسم کے چھیدوں اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
animepopheart · 5 months
Text
Tumblr media
★ 【جعفری چیف جیل】 「 オメデト! 」 ☆ ✔ republished w/permission ⊳ ⊳ follow me! insta • x • bsky
85 notes · View notes
urduchronicle · 8 months
Text
بنی گالہ سب جیل میں محفوظ تصور نہیں کرتی، اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے، بشریٰ بی بی کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست
بشریٰ بی بی نے بانی پی ٹی آئی کے بنی گالہ میں گھر کو سب جیل قرار دینے کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا،درخواست میں استدعا کی گئی  ہے  کہ خان ہاؤس کو سب جیل قرار دینے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ بشریٰ بی بی کو خان ہاؤس بنی گالا سے واپس اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں، 31 جنوری کو بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ ریفرنس میں 14 سال قید…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
hasnain-90 · 1 year
Text
‏اپنی زندگی کو اپنے لیے ایسی جیل نہ بنائیں جس کی
سلاخیں لوگوں کی ”رائے“ پہ مبنی ہوں 🥀
7 notes · View notes
urduclassic · 1 year
Text
جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی
Tumblr media
حبیب جالب کی بیگم ایک دن اُن سے ملاقات کیلئے جیل گئیں اور جالب سے کہنے لگیں۔ آپ تو جیل میں آگئے ہو یہ بھی سوچا ہے کہ بچوں کی فیس کا کیا بنے گا اور گھر میں آٹا بھی ختم ہونے والا ہے۔ حبیب جالب نے اس ملاقات کے بارے میں ایک نظم لکھی۔ جس کا عنوان ”ملاقات“ رکھا۔
ملاقات جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی
اس نے نہ ٹھہرنے دیا پہروں مرے دل کو جو تیری نگاہوں میں شکایت مری جاں تھی
گھر میں بھی کہاں چین سے سوئے تھے کبھی ہم جو رات ہے زنداں میں وہی رات وہاں تھی
یکساں ہیں مری جان قفس اور نشیمن انسان کی توقیر یہاں ہے نہ وہاں تھی
شاہوں سے جو کچھ ربط نہ قائم ہوا اپنا عادت کا بھی کچھ جبر تھا کچھ اپنی زباں تھی
صیاد نے یونہی تو قفس میں نہیں ڈالا مشہور گلستاں میں بہت میری فغاں تھی
تو ایک حقیقت ہے مری جاں مری ہم دم جو تھی مری غزلوں میں وہ اک وہم و گماں تھی
محسوس کیا میں نے ترے غم سے غم دہر ورنہ مرے اشعار میں یہ بات کہاں تھی 
حبیب جالب
8 notes · View notes
emergingpakistan · 11 months
Text
طاقت سے مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو دبایا نہیں جاسکتا‘
Tumblr media
اسرائیل-فلسطین تنازع اور غزہ میں جنگ ایک ایسا لاوا تھا جو طویل عرصے سے پک رہا تھا۔ فلسطین پر 7 دہائیوں کے وحشیانہ اسرائیلی قبضے کے باعث حالات اس نہج پر پہنچے۔ اسرائیل جو ہمیشہ سے ہی فلسطینیوں کے خلاف ’حالتِ جنگ‘ میں ہے، اس نے فلسطینیوں کے خلاف شدید جارحیت، آبادکاروں کی جانب سے تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مقدس اسلامی مقامات کی بےحرمتی اور جدید تاریخ میں نسل پرستی کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے زبردستی بےدخل کیا گیا، انہیں ان کے گھروں سے محروم کیا گیا جبکہ انہیں ظلم، بلاوجہ گرفتاریاں اور اجتماعی سزاؤں کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان کے پورے کے پورے محلوں کو مسمار کر دیا گیا اور ان کی جگہ اسرائیلیوں کی غیرقانونی آبادکاری کے لیے راہ ہموار کی گئی۔ ان مظالم نے بےگھر ہونے والے لوگوں کو ناقابلِ بیان مصائب میں مبتلا کیا ہے۔ غزہ کے 20 لاکھ سے زائد رہائشی گزشتہ 16 سال سے اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی اور ظالمانہ پابندیوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور ان پابندیوں نے ان کی زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ وہ ایسی جگہ رہتے ہیں جسے دنیا کی سب سے بڑی ’کھلی جیل‘ کہا جاتا ہے۔
ناانصافیوں کی اس تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو بڑے پیمانے پر ��نگ کا آغاز کرنا زیادہ حیران کن نہیں لگتا۔ اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ اور بلاامتیاز جوابی کارروائی نے فلسطین کی المناک داستان میں ایک دردناک باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ اسرائیل نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ ’دردناک انتقام‘ لے گا اور ساتھ ہی غزہ کا محاصرہ کرلیا ہے۔ وہ اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ ایک تنگ، غریب�� گنجان آباد پٹی پر کررہا ہے جبکہ رہائشی عمارتوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں کو بمباری کا نشانہ بنارہا ہے جو کہ بلاشبہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس بمباری سے 700 بچوں سمیت 2 ہزار 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے جبکہ تقریباً 5 لاکھ کے قریب فلسطینی بےگھر ہوچکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس چیف نے اسرائیل کے محاصرے کو بین الاقوامی انسانی حقوق قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوسیپ بورل نے بھی غزہ کے محاصرے کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ غزہ کے لیے بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی بند کر کے اسرائیل نے ایک خوفناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اسرائیلی فوج نے 11 لاکھ فلسطینیوں کو شمالی غزہ خالی کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ 
Tumblr media
اقوامِ متحدہ کی جانب سے تباہ کُن نتائج کے لیے خبردار کیا گیا ہے اور اب غزہ میں انسانی المیے کا سامنا ہے۔ اس المیے میں بین الاقوامی برادری کا بھی ہاتھ ہے۔ فلسطینیوں کی حالتِ زار کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے مغربی میڈیا اس مؤقف کی غیرمشروط حمایت کر رہا ہے کہ ’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘۔ امریکا جو اسرائیل کا اہم اتحادی ہے اس نے اسرائیل کے لیے مکمل فوجی تعاون کا اعلان کیا ہے، ساتھ ہی مشرقی بحیرہ روم میں ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی بھیجا ہے اور اسرائیل کو ’جدید ہتھیار‘ بھی فراہم کیے ہیں۔ کوئی بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کرسکتا جس کے تحت دونوں جانب بےگناہ افراد مارے گئے لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک کی حکومتوں نے اسرائیلیوں کی اموات پر تو غم و غصے کا اظہار کیا مگر بے گناہ فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے پر وہ چُپ سادھے بیٹھے ہیں۔ جس دوران اسرائیلی بمباری سے پوری کی پوری آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن رہی تھیں اس دوران آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن (او آئی سی) نے بیان جاری کیا جس میں فلسطینی عوام پر اسرائیل کی عسکری جارحیت کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ غیرمستحکم حالات کی وجہ اسرائیل کا فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ 
لیکن 57 مسلمان ممالک کی اس تنظیم نے فلسطین کے حق میں اجتماعی اقدامات پر غور نہیں کیا۔ نہ ہی ان عرب ممالک جو گزشتہ سالوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر چکے ہیں، سے کہا گیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کریں۔ درحقیقت نارملائزیشن کی اسی پالیسی کے سبب اسرائیل کو حوصلہ ملا ہے اور وہ آزادانہ طور پر غزہ میں اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس بھی بلایا گیا جس نے اسرائیل سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کر کے خاموشی اختیار کر لی۔ ایک بار پھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی۔ 8 اکتوبر کو حالات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اس کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا لیکن یہ اجلاس اس وقت تعطل کا شکار ہوا جب سیکیورٹی کونسل کوئی بیان ہی جاری نہ کرسکی۔ کہا جارہا ہے کہ مغربی ممالک چاہتے تھے کہ سلامتی کونسل حماس کی پُرزور اور سخت الفاظ میں مذمت کرے جبکہ کشیدگی کم کرنے پر ہرگز زور نہ دے۔
روسی نمائندے نے کونسل پر جنگ بندی اور بامعنیٰ مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالا لیکن وہ کسی کام نہیں آیا۔ 13 اکتوبر کو ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی شدید اختلافات دیکھنے میں آئے۔ روس نے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی‘ کی تجویز دی اور شہریوں کے تحفظ پر زور دینے کے لیے قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کو پی 3 یعنیٰ امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے کوئی توجہ نہ مل سکی جبکہ اس پر ووٹ ہونا ابھی باقی ہے لیکن اس قرارداد کو اکثریت کی حمایت ملنا ناممکن لگ رہا ہے۔ یوں سلامتی کونسل تشدد کو روکنے کا اپنا فرض ادا نہیں کر پائی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ کسی معاملے کو سلجھانے میں ناکام رہی ہو۔ مسئلہ کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے جو تقریباً اقوامِ متحدہ کے آغاز سے ہی اس کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں میں اس مسئلے کو حل کرنے اور فلسطین پر اسرائیل کے غیرقانونی قبضے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 
فلسطین کے مسئلے پر کم از کم 88 قراردادیں سلامتی کونسل میں پیش کی گئیں۔ اس مسئلے کا سب سے پرانا حل جو سلامتی کونسل نے پیش کیا وہ دو ریاستی حل تھا جس کے تحت فلسطین عملی اور خودمختار ریاست ہو گا۔ لیکن اسرائیل کو برسوں پہلے سے مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی خاص طور پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے دو ریاستی حل کو مسترد کیا اور اس کے بجائے ایک ریاست کا ’حل‘ پیش کیا جس کی وجہ سے غیرقانونی طور پر اسرائیلی بستیوں کی توسیع کر کے نہ صرف سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ اس آبادکاری کو روکنے کے لیے بین الاقوامی مطالبات کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ ان قراردادوں پر عمل نہ کر کے عالمی قوتوں نے خود پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں کیونکہ یہ قوتیں حالات بدلنے کا اختیار رکھتی ہیں لیکن وہ اسرائیل کی غیرمشروط حمایت میں اس قدر اندھی ہو چکی ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے دعوے کے برعکس عمل کر رہی ہیں۔ 
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ موجودہ تنازع ’اچانک کھڑا نہیں ہوا ہے‘ بلکہ اس کے پیچھے ایک ’دیرینہ مسئلہ ہے جو 56 سال پرانے قبضے سے پروان چڑھا‘۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ خونریزی کو بند کیا جائے اور ’اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں پیش کردہ دو ریاستی حل کی روشنی میں مذاکرات کر کے امن بحال کیا جائے۔ اسی طرح اس سرزمین کے لوگوں اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے پائیدار استحکام لایا جاسکتا ہے‘۔ انہوں نے اسرائیل پر یہ بھی زور دیا کہ وہ 11 لاکھ لوگوں کے انخلا کے اپنے حکم پر نظرثانی کرے۔ اس طرح کی اپیلوں پر اسرائیل بالکل بھی کان نہیں دھر رہا۔ اسرائیل کی غزہ پر زمینی کارروائی اور غزہ پر دوبارہ قبضے کی منصوبہ بندی کے باعث اس تنازع کے نتائج واضح نہیں ہیں۔ اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ یہ جنگ خطے میں پھیل سکتی ہے۔ ایک بات جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ خطے میں نارملائزیشن کی تمام کوششیں بالخصوص سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بنانے کے تمام منصوبے ملیا میٹ ہو چکے ہیں۔ پھر گزشتہ 7 دہائیوں کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے اور وہ یہ ہے کہ طاقت اور جبر سے کوئی بھی مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو نہیں دبا سکتا ۔
ملیحہ لودھی  یہ مضمون 16 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes · View notes
googlynewstv · 3 months
Text
عمران خان جیل میں کس اعلی ترین افسر کو گالیاں بک رہے ہیں؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے انکشاف کیا ہے کہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان اپنے اکثر ملاقاتیوں سے گفتگو میں ایک طاقت ور ترین ادارے کے اعلیٰ ترین عہدے دار کے بارے مسلسل مغلظات بکتے ہیں، اور دشنام طرازی پر اتر آتے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ خان صاحب کی یہ بیہودہ بات چیت ریکارڈ کی جاتی ہے، اور اس کا ٹرانس کرپٹ متعلقہ اداروں اور افسران تک پہنچایا جاتا ہے۔ اس گفتگو میں عمران خان اپنی رہائی…
youtube
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
احتجاجی گرفتاریوں کے بعد تھائی بچوں کو 'جیل کا سامنا': ایمنسٹی | بچوں کے حقوق کی خبریں۔
ایک 14 سالہ نوجوان پر بادشاہ کی توہین کا الزام۔ ایک 13 سالہ بچے کو پولیس اہلکاروں نے ریستوران سے جسمانی طور پر گھسیٹ لیا۔ ایک 17 سالہ لڑکے کو ربڑ کی گولیوں سے گولی مار کر مارا گیا۔ یہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک نئی رپورٹ میں سامنے آنے والی کہانیوں میں شامل ہیں، جس میں تھائی لینڈ کے طویل عرصے سے جاری احتجاج میں حصہ لینے والے بچوں کے حوالے سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی دستاویز کی گئی تھی اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
0rdinarythoughts · 2 years
Text
ایک عورت جیل میں اپنے خاوند سے ملنے گئی۔ واپسی پر جیل وارڈن سے کہا کہ تم لوگ میرے خاوند سے اسطرح مشقت نہ لو، وہ تو مر جائے گا۔ وارڈن بولا کون سی مشقت وہ تو بس کھاتا پیتا اور سوتا ہے۔ خاتون بولیں تو کیا وہ جھوٹ بول رہا ہے کہ وہ کئی مہینوں سے اپنے کمرے میں سرنگ کھود رہا ہے
A woman went to the jail to meet her husband. On returning, she told the jail warden that you people don't take such labor from my husband, he will die. The warden said which labor, he only eats, drinks and sleeps. If the woman says, is he lying? Been he's been digging a tunnel in his room for months
(Excerpt from the book Khatoon e Khana)
9 notes · View notes
urduchronicle · 8 months
Text
بشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے بنی گالہ منتقل، عمران خان کا گھر سب جیل قرار
توشہ خانہ ریفرنس میں 14 سال کی قید کی سزا پانے والی سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو اڈیالہ جیل سے بنی گالہ منتقل کرکے سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے دیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بشریٰ بی بی کو بنی گالہ میں نظر بند رکھا جائے گا، بشریٰ بی بی کو سخت سیکیورٹی میں اڈیالہ جیل سے بنی گالا منتقل کیا گیا۔ ضلعی انتظامیہ نے بنی گالا رہائش گاہ کو سب جیل قرار دینے کا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistantime · 1 year
Text
ڈاکٹر عافیہ بہت ظلم سہہ چکی
Tumblr media
امریکی جیل میں 13 سال سے قید پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ڈھائی گھنٹے طویل ملاقات ہوئی۔ خبروں کے مطابق یہ ملاقات ٹیکساس کے شہر فورورتھ کی جیل ایف ایم سی کارس ول میں ہوئی۔ ڈاکٹر عافیہ سے ان کے خاندان کے کسی فرد کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ ڈاکٹر عافیہ کو لاپتہ ہوے 24 سال اور امریکی قید میں 13 سال کا طویل عرصہ گزر چکا لیکن اس کے باوجود دونوں بہنوں کو نہ ہاتھ ملانے دیا گیا نہ وہ گلے مل سکیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد، جو ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ہمراہ امریکہ گئے ہوئے ہیں، نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ دونوں بہنوں کی یہ ملاقات جیل کے ایک کمرے میں ہوئی لیکن دونوں کے درمیان موٹا شیشہ لگا تھا جس سے وہ ایک دوسرے کو دیکھ اور سن تو سکتی تھیں لیکن چھو نہیں سکتی تھیں۔ سفید اسکارف اور خاکی جیل ڈرس میں ملبوس عافیہ صدیقی سے اُن کی بہن کی ڈھائی گھنٹے کی اس ملاقات میں پہلے ایک گھنٹہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے روز روز اپنے اوپر گزرنے والی اذیت کی تفصیلات بتائیں۔ ڈاکٹر عافیہ اپنی بہن سے اپنی ماں (جو اُن کی قید کے دوران وفات پاچکی ہیں) اور اپنے بچوں کے بارے میں پوچھتی رہیں اور کہا کہ ماں اور بچے اُنہیں ہر وقت یاد آتے ہیں۔ 
Tumblr media
ڈاکٹر عافیہ کو اپنی ماں کی وفات کا علم نہیں ہے۔ امریکہ کی قید میں پاکستان کی اس بیٹی کے سامنے والے دانت جیل میں ہوئے حملے میں ضائع ہو چکے ہیں اور اُن کے سر پر لگنے والی ایک چوٹ کی وجہ سے انہیں سننے میں بھی مشکل پیش آ رہی تھی۔ سینیٹر مشتاق کے مطابق کل ڈاکٹر عافیہ سے اُن کی ڈاکٹر فوزیہ اور کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ سمیت جیل میں ملاقات ہو گی۔ اُنہوں نے ڈاکٹر فوزیہ کی (عافیہ صدیقی سے) ملاقات کا افسوسناک احوال سناتے ہوئے کہا کہ اگرچہ صورتحال تشویشناک ہے لیکن ملاقاتوں کا، بات چیت کاراستہ کھل گیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام آواز اُٹھائیں اور حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ فوری اقدامات کر کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ امریکی حکومت کے ساتھ اُٹھائیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے اُن کی ملاقات کا یہ مختصر احوال پڑھ کر دل رنجیدہ ہو گیا۔ سوچ رہا ہوں کہ اُن افراد کے ضمیر پر کتنا بوجھ ہو گا جنہوں نے پاکستان کی اس بیٹی کو امریکہ کے حوالے کیا ،جہاں ایک نام نہاد مقدمے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اسی پچاسی سال کی سزا سنا دی گئی۔ 
یہ ظلم پرویزمشرف کے دور میں ہوا۔ پرویزمشرف کا انتقال ہو چکا ہے، جنہو ں نے اپنی کتاب میں تسلیم کیا کہ اُنہوں نے ڈالرز کے بدلے پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کیا۔ امریکہ کے دباو میں اپنے شہریوں اور پاکستان کی ایک بیٹی کو امریکہ کے حوالے کرنے میں ایجنسیوں کے جن افراد کا کردار تھا وہ بھی آج کیا سوچتے ہوں گے۔؟ بڑی تعداد میں امریکہ کے حوالے کئے گئے پاکستانی جنہیں گوانتامو بے میں انتہائی مشکل حالات میں رکھا گیا تھا اُن میں سے کئی پاکستان واپس لوٹ چکے لیکن اس گھناونے کھیل میں شامل اُس وقت کے ہمارے ذمہ دار اور کرتا دھرتا اپنے رب کو کیا جواب دیں گے۔ نجانے کب تک ڈاکٹر عافیہ امریکی جیل میں پڑی رہیں گی۔ ہماری مختلف سیاسی جماعتیں یہ وعدہ کرتی رہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان واپس لانے کیلئے امریکہ سے بات چیت کی جائے گی۔ اس دوران ن لیگ، تحریک انصاف اورپیپلز پارٹی کی حکومتیں آئیں لیکن ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش کبھی ہوتی دکھائی نہ دی۔ یہ موجودہ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی پاکستان منتقلی کا مسئلہ امریکہ کے سامنے سنجیدگی سے اُٹھائے اور اُس وقت تک اس کیس کا پیچھا کرے جب تک کہ پاکستان کی اس بیٹی کی واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر عافیہ پہلے ہی بہت ظلم سہہ چکی۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ  
2 notes · View notes
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلی تعلقات عامہ پنجاب، لاہور
فون نمبر 99201390
قدرت اللہ/آصف
ہینڈ آؤٹ نمبر3791
عید میلادالنبیﷺ: پی ایچ اے کی جانب سے شہر بھر میں چراغاں
لاہور، 18 ستمبر: پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی نے عید میلادالنبیﷺ کے موقع پر اپنے دفاتر اور صوبائی دارالحکومت کے مختلف مقامات پر چراغاں کا اہتمام کیا۔
آج یہاں جاری ایک بیان میں ترجمان نے بتایا کہ پی ایچ اے کی جانب سے رات میں جگ مگ کرنے والے خانہ کعبہ، مسجد نبویﷺ، اسلامی ہلال اور مذہبی نوعیت کے دیگر ماڈلز کو لاہور کے مختلف مقامات پر خوبصورتی سے ڈسپلے کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پی ایچ اے نے عید میلادالنبیﷺ کی مناسبت سے شاہراہ قائداعظم، جیل روڈ، ڈیوس روڈ، اڈا پلاٹ اور دیگر شاہراؤں کو دیدہ زیب روشنیوں سے سجایا۔ اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل محمد طاہر وٹو نے کہا کہ نبی آخر الزمانﷺ کی حیات مبارکہ اور تعلیمات پوری انسانیت کے لیے مینارہ نور ہیں۔ سیرتِ طیبہﷺ نہ صرف ایمان و عبادات بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ایک کامل ترین نمونہ ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ہم دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں -
٭٭٭
0 notes
jawadhaider · 17 days
Text
آج کے مشہور جلسہ کے مشہور عوامی فقرے
#8ستمبر
گنڈاپور
فیض حمید کو فوجی تم نے بنایا، جنرل تم نے بنایا، ڈی جی تم نے بنایا، اب اگر وہ غلط کرے تو اپنا ادارہ صہیح کرو ہمیں کیوں کہتے ہو۔
عمران خان کا ملٹری ٹرائل نہ خواجہ آصف کا باپ کرسکتا ہے نہ خواجہ آصف کے باپ کرسکتے ہیں ، علی امین
اگلا جلسہ لاہور میں ہوگا، مریم میں آرہا ہوں، پنگا مت لینا وہ حال کریں گے کہ بنگلہ دیش بھول جاؤ گے، ہمارے پٹھانوں کا اصول ہے ڈھول بھی لاتے ہیں اور بارات بھی، علی امین گنڈا پور۔۔۔!!!
عمران خان تم جیت گئے یہ سارے بے غیرت ہار گئے ، علی امین
اگر تم نےفوج نہ ٹھیک کی تو فوج کو ہم ٹھیک کردیں گے ، لو یو علی امین
علی امین نے ڈیڈ لائن دے دی 🚨
ایک سے دو ہفتوں میں عمران خان رہا نا ہوا تو ہم خود عمران خان کو رہا کروائیں گے لیڈ میں کروں گا پہلی گولی بھی میں کھاؤں گا۔
علی امین گنڈا پور کی وارننگ
علامہ راجہ ناصر عباس
دوستو یہ جدوجہد بہت طویل ہے آپ نے مایوس نہیں ہونا،میدان میں ڈٹے رہنا ہے،دنیا کی کوئی طاقت آپ کے جذبوں اور حوصلوں کو شکست نہیں دے سکتے۔جلسے سے خطاب
اب جو ہمیں مارے گا،ہم اسے ماریں گے،اگر آئین تم نہیں مانتے تو آئین پھر ہم بھی نہیں مانتے،علی امین گنڈا پور
‏فیض حمید ہمیں کوئی جہیز میں نہیں ملا تھا وہ تمہارا جنرل تھا وہ تمہارا باپ تھا
علی امین گنڈا پور کی للکار🔥🔥🔥
محمود خان اچکزئی
میں تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ذریعے عمران خان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ دنیا میں جتنے انقلابات ہوئے انہیں اتنی بڑی عوامی حمایت حاصل نہیں تھی جتنی آپ کو حاصل ہے۔ پھر کیوں انقلاب نہیں ہورہا؟
انقلاب کیلئے بنیادی شرط تنظیم ہے۔ یہاں تنظیم کی کمی ہے۔
مجھے تحریک انصاف کی اس قیادت سے ایک گلہ ہے کہ لاکھوں لوگوں کے سمندر کے باوجود عمران خان جیل میں ہے یہ افسوس کی بات ہے۔
کیوں نہ اڈیالہ کی طرف مارچ شروع کیا جائے؟ ہمارا راستہ نا اسٹیبلشمنٹ روک ‏سکتی ہے نا یہ سرکار۔
خالد خورشید کا یہ جملہ پاکستان کی 77 سالہ تاریخ کا نچوڑ ہے:
ایوب نے آئین پہ پیشاب کیا: بھٹو نے جنم لیا
ضیاء نے آئین پہ پیشاب کیا: شریف خاندان نے جنم لیا
منیرے مستری نے آئین پہ پیشاب کیا: محسن نقوی نے جنم لیا
0 notes
emergingkarachi · 1 month
Text
کراچی کا ماضی
Tumblr media
آج میں آپ کو ڈیڑھ سو برس پیچھے لے جانا چاہتا ہوں۔ آپ کو ماضی کی سیر کرانا چاہتا ہوں۔ ��ٓپ کو ویزا کی یا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ گزرا ہوا کل دیکھنے کے لیے آپ کو کسی قسم کا ٹکٹ خریدنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیتے ہوئے ادوار کی طرف ہوائی جہاز، ریل گاڑی اور بسیں نہیں جاتیں، میں آپ سے دنیا دکھانے کا وعدہ نہیں کرتا۔ ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے کا بھیانک آنکھوں دیکھا حال میں آپ کو سنا نہیں سکتا۔ ہندوستان کے ایک جزیرہ انڈومان پر انگریزوں نے روح فنا کردینے جیسی جیل بنائی تھی۔ سمندر میں گھرے ہوئے انڈومان جیل میں سیاسی قیدیوں کو پابند سلاسل کیا جاتا تھا۔ انڈومان جیل میں آپ کو نہیں دکھائوں گا۔ میں آپ کو یہ بھی نہیں دکھائوں گا کہ شہنشاہ ہند اورنگزیب نے کس بیدردی سے اپنے تین بڑے بھائیوں کو قتل کروا دیا تھا۔ ماضی کی جھلک دکھاتے ہوئے میں اس بات پر بحث نہیں کروں گا کہ ہندو اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے انگریز نے ریلوے پلیٹ فارم اور ریل گاڑیوں میں ہندو پانی اور مسلمان پانی، ہندو کھانے اور مسلمان کھانے کا رواج ڈالا تھا۔ میں آپ کو یہ بھی نہیں بتائوں گا کہ تب کراچی سے کلکتہ جانے کے لیے آپ کو ویزا کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ آپ کو صرف ریل گاڑی کا ٹکٹ خریدنا پڑتا تھا۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ اگست انیس سو سینتالیس سے پہلے ہندوستان میں رہنے والے ہم سب لوگ پیدائشی طور پر ہندوستانی ہوتے تھے۔
کراچی، لاہور اور پشاور میں پیدا ہونے والے بھی پیدائشی ہندوستانی Born Indian ہوتے تھے۔ مدراس سے بمبئی آنے جانے پر روک ٹوک نہیں ہوتی تھی۔ ایسا ہوتا تھا ہمارے دور کا برصغیر، کڑھنے یا میری نسل کو برا بھلا کہنے سے زمینی حقائق بدل نہیں سکتے۔ اگست 1947ء سے پہلے ہندوستان کا بٹوارہ نہیں ہوا تھا۔ اگست 1947ء سے پہلے پاکستان عالم وجود میں نہیں آیا تھا۔ لہٰذا اگست 1947ء سے پہلے ہم سب نے ہندوستان میں جنم لیا تھا۔ تب کراچی، لاہور اور پشاور برٹش انڈیا کا حصہ تھے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے، گھڑی ہوئی کہانی نہیں ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں ہمارا اہم اور بہت بڑا حصہ ہے۔ میں نے سیانوں سے سنا ہے کہ اپنے تاریخی اور ثقافتی حصہ سے دستبردار ہونا کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہوتا۔ اس لمبی چوڑی اور نامعقول تمہید کا مطلب اور مقصد بھی یہی ہے جو ابھی ابھی میں نے آپ کے گوش گزار کیا ہے۔ میں آپ کو سیر کروانے کے لیے لے جارہا ہوں مچھیروں کی چھوٹی سی بستی کی طرف۔ یہ بستی نامعلوم صدیوں سے بحر عرب کے کنارے آباد ہے۔ اب یہ چھوٹی سی بستی ایک بہت بڑے تجارتی شہر میں بدل چکی ہے۔ 
Tumblr media
یوں بھی نہیں ہے کہ ڈیڑھ سو برس پہلے مچھیروں کی چھوٹی سی بستی گمنام تھی۔ تب ٹھٹھہ معہ اپنے اطراف کے مشہور تجارتی شہر ہوا کرتا تھا۔ بیوپاری اپنا سامان ملک سے باہر بھیجتے تھے اور بیرونی ممالک سے برآمد کیا ہوا سامان اپنے ملک سندھ میں بیچا کرتے تھے۔ تاریخ کے بد خواہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ سندھ انگریز کے آنے سے پہلے خودمختار ملک تھا۔ سندھ کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا۔ اٹھارہ سو تینتالیس میں سر چارلس نیپئر نے فتح کرنے کے بعد سندھ کو ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دیکھنے کے لیے بمبئی یعنی ممبئی صوبے سے ملا دیا تھا ۔ اس طرح انیس سو تینتالیس میں سندھ ہندوستان کا حصہ بنا۔ یہاں مجھے ایک تاریخی بات یاد آرہی ہے بلکہ دو باتیں یاد آرہی ہیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے موقع پر کسی مسلمان سیاستدان نے انگریز سے سوال نہیں اٹھایا کہ انگریز کی فتح سے پہلے سندھ ایک الگ تھلگ خودمختار ملک تھا۔ تقسیم ہند سے پہلے سندھ کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا۔ کسی بھی موقع پر کسی سیاستدان نے یہ سوال انگریز سے نہیں پوچھا تھا کہ آپ لوگوں نے سندھ ایک آزاد ملک کے طور پر جنگ میں جیتا تھا، ہندوستان کے ایک حصے یا صوبہ کے طور پر نہیں۔ 
اب آپ سندھ کا بٹوارہ ہندوستان کے ایک صوبہ کے طور پر کیوں کررہے ہیں؟ آپ سندھ کو ایک آزاد ملک کی طرح آزاد کیوں نہیں کرتے؟ اسی نوعیت کی دوسری بات بھی ہمارے سیاستدانوں نے انگریز سے نہیں پوچھی تھی۔ انگریز نے مکمل طور پر جب ہندوستان پر قبضہ کر لیا تھا تب ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ یہاں سے کوچ کرتے ہوئے آپ نے ہندوستان کے ٹکڑے کیوں کر دیے؟ انڈونیشیا، ملائیشیا، سری لنکا، نیپال وغیرہ کی طرح ایک ملک کے طور پر ہندوستان کو آزاد کیوں نہیں کیا؟ اور سب سے اہم بات کہ آپ نے ہندوستان مسلمان حکمراں سے جیتا تھا، ہندوئوں سے نہیں۔ جاتے ہوئے آپ نے ہندوستان کی حکومت مسلمانوں کے حوالے کیوں نہیں کی تھی؟ ڈیڑھ سو برس بعد ایسے سوال فضول محسوس ہوتے ہیں۔ انگریز میں بے شمار اچھائیاں تھیں، بے شمار برائیاں تھیں۔ انہوں نے بھرپور طریقے سے ہندوستان پر حکومت کی تھی۔ کراچی کو ننھا منا لندن بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ جنہوں نے 1947ء کے لگ بھگ لندن دیکھا تھا، وہ کراچی کو چھوٹا سا لندن کہتے تھے اور پھر کراچی جب ہمارے ہتھے چڑھا، ہم نے انگریز کی نمایاں نشانیاں غائب کرنا شروع کر دیں۔ 
دنیا بھر کے مشہور شہروں میں آج بھی ٹرام رواں دواں ہے۔ ہم نے ٹرام کی پٹریاں اکھاڑ دیں۔ ٹرام اور ڈبل ڈیکر بسوں کا رواج ختم کر دیا۔ مشرقی اور مغربی امتزاج کی ملی جلی عمارتوں میں ایک عمارت کا نام تھا پیلس ہوٹل، یہ انتہائی خوب صورت عمارت تھی، ہم نے گرا دی۔ ایسی کئی عمارتیں ایلفنسٹن اسٹریٹ اور وکٹوریا روڈ صدر پر شاندار انداز میں موجود ہوتی تھیں۔ ہم نے ان عالی شان عمارتوں کا ستیاناس کر دیا۔ جانوروں کے لیے شہر میں جابجا پانی کے حوض ہوا کرتے تھے، ہم نے اکھاڑ دیے۔ کراچی سے ہم نے اس کا ماضی چھین لیا ہے۔
امر جلیل
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes