Tumgik
#دکھانے
apnibaattv · 2 years
Text
رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ عمران خان کی ویڈیوز ’نہ دیکھنے کے لائق ہیں نہ دکھانے کے‘
رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ عمران خان کی ویڈیوز ’نہ دیکھنے کے لائق ہیں نہ دکھانے کے‘
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور وفاقی وزیر شازیہ مری لاپتہ افراد کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔ – اے پی پی/فائل اسلام آباد: وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے منگل کے روز پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی ویڈیوز دیکھنے کا دعویٰ کیا، جس میں ان کا دعویٰ تھا کہ “نہ تو دیکھنے کے لائق ہیں اور نہ ہی دکھانے کے”۔ دوران وزیر اعظم شہباز شریف…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
hoefortoes1 · 5 months
Text
I don't think y'all understand how gut-wrenchingly beautiful Urdu poetry is, like Ahmed faraz literally said:
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ Let it be anguish, even to torture my heart, come Come even if only to abandon me to torment again.
Ranjish hi sahi dil hi dukhane ke liye aa
Aa phir se mujhe chhod ke jaane ke liye aa.
51 notes · View notes
my-urdu-soul · 4 months
Text
گمشدگی ہی اصل میں یارو راہ نمائی کرتی ہے
راہ دکھانے والے پہلے برسوں راہ بھٹکتے ہیں
- حفیظ بنارسی
Tumblr media
10 notes · View notes
chashmenaaz · 7 months
Text
وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے
Those who sang on the shores, what became of them? Those who sailed the boats, what became of them?
وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے
Where did those mornings keep slipping away? Those caravans that were supposed to arrive, what became of them?
میں ان کی راہ دیکھتا ہوں رات بھر
وہ روشنی دکھانے والے کیا ہوئے
I watch their path all night long, Those who were supposed to show the light, what became of them?
یہ کون لوگ ہیں مرے ادھر ادھر
وہ دوستی نبھانے والے کیا ہوئے
Who are these people wandering around here and there? Those who were supposed to maintain friendship, what became of them?
وہ دل میں کھبنے والی آنکھیں کیا ہوئیں
وہ ہونٹ مسکرانے والے کیا ہوئے
What happened to those eyes that used to hide in the heart? What happened to those lips that used to smile?
عمارتیں تو جل کے راکھ ہو گئیں
عمارتیں بنانے والے کیا ہوئے
The buildings have turned to ashes after burning, Those who were supposed to build buildings, what became of them?
اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی
ترا دیا جلانے والے کیا ہوئے
Helpnessness asks the lonely house, What became of those who used to light your lamp?
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
We are but a burden on the earth, What became of those who lifted the burden of the earth?
Nasir Kazmi
9 notes · View notes
ayy-esha · 12 days
Text
میں نے ہر شخص کا دل رکھامگر مخلوق خدا نے میرا دل دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی میری زندگی میں موجود ہر ایک انسان نے پورے اہتمام کے ساتھ میرا دل دکھایا مگر میں نے ایک بار بھی پلٹ کر ویسا عمل کرنے کی کوشش نہیں کی اور اس کے باوجود مجھے ہمیشہ تکلیف سے دو چار کیا گیاخالقا تو جو مالک یوم الدین ہےاللہ تو تو بڑا الرحمٰن الرحیم ہے مگر تیرے بندے مالک یوم الدنیا بنے ہوئے ہیں اور دل آزاریاں کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے❤️🙂
6 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 4 months
Text
جب بھی گھر کی چھت پر جائیں ناز دکھانے آ جاتے ہیں
منیر نیازی
جب بھی گھر کی چھت پر جائیں ناز دکھانے آ جاتے ہیں
کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں
دن بھر جو سورج کے ڈر سے گلیوں میں چھپ رہتے ہیں
شام آتے ہی آنکھوں میں وہ رنگ پرانے آ جاتے ہیں
جن لوگوں نے ان کی طلب میں صحراؤں کی دھول اڑائی
اب یہ حسیں ان کی قبروں پر پھول چڑھانے آ جاتے ہیں
کون سا وہ جادو ہے جس سے غم کی اندھیری سرد گپھا میں
لاکھ نسائی سانس دلوں کے روگ مٹانے آ جاتے ہیں
ز کے ریشمی رومالوں کو کس کس کی نظروں سے چھپائیں
کیسے ہیں وہ لوگ جنہیں یہ راز چھپانے آ جاتے ہیں
ہم بھی منیرؔ اب دنیا داری کر کے وقت گزاریں گے
ہوتے ہوتے جینے کے بھی لاکھ بہانے آ جاتے ہیں
4 notes · View notes
curlybrownhair · 1 year
Text
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کیلئے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کیلئے آ
کس کس کو بتائنگے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کیلئے آ
Tumblr media
Ranjish hi shi dil hi dukhaney k liye aa
Aa phir se mjh chor ke jany k kiye aa
kis kis ko bataengy judai k sabab hm
to mjhse khafa h to zamaney k liye aa
3 notes · View notes
hasnain-90 · 2 years
Text
‏تم تو تھکن شناس تھے چہرے سے بھانپتے
تم کو بھی آبلے ھی دکھانے پڑے مجھے 🥀
3 notes · View notes
officialkabirsaheb · 2 years
Text
''دوِیہ دھرم یگیہ دِوَس'' کیا ہے؟
کاشی کے نقلی دھرم گُرو کبیر صاحب جی سے حسد کرتے تھے۔ وہ پرماتما کو قبول نہیں کرنا چاہتے تھے ساتھ ہی الگ الگ طرح سے نیِچا دکھانے کی سازشیں بناتے رہتے تھے کیونکہ اُن کی ڈھونگ کی دکان بند ہو رہی تھی۔ سب نے مل کر جُھوٹے پتر لکھے اور دہلی کے راجا سمیت اٹھارہ لاکھ لوگوں کو بھنڈارے میں بُلایا، چِٹھی میں یہ بھی تھا کہ ہر ایک بھوجن کرنے والے کو ایک دوہر اور ایک سونے کی موہر بھی ملے گی۔ ایسا انہوں نے یہ سوچ کر کیا کہ ایک جُلاہا اتنے لوگوں کیسے بھنڈارا کرائے گا۔ لیکن جُلاہے کی بھُومِکا کرتے ہوئے پُورن پرماتما کبیر صاحب جی نے اٹھارہ لاکھ سادھُو سنتوں لوگوں کو بھوجن کرایا۔ سارا بھوجن بھنڈارا ستلوک سے لائے اور ہر ایک بھوجن کرنے والے کو ایک دوہر اور ایک موہر دی اور سُوکھا سیدھا بھی دیا۔ وہ حیرت انگیز بھنڈارا تین دنوں تک چلتا رہا۔
#سچا_ستگُرو_کون
#سنت_رامپالجی_مہاراج
#TrueGuruSaintRampalJi
Tumblr media
6 notes · View notes
googlynewstv · 8 days
Text
کیا گنڈاپور کی وزارت اعلیٰ کا سورج غروب ہونے والاہے؟
عوام میں دھمکیاں دے کر تنہائی میں معافیاں مانگنے والے منہ پھٹ وزیر اعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کا اقتدار ہاتھ سے جاتا دکھائی دیتا ہے۔ کے پی اسمبلی کے تین درجن سے زائد پی ٹی آئی اراکین نے گنڈاپور کیخلاف باقاعدہ فارورڈ بلاک بنا لیا ہے جس کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو عوام کے سامنے آنکھیں دکھانے والے گنڈاپور کی اپنی آنکھیں باہر نکلنا یقینی ہو گیا ہے۔ بڑھتے ہوئے پارٹی اختلافات کے بعد علی امین گنڈاپور…
0 notes
dpr-lahore-division · 17 days
Text
عالمی یوم خواندگی کے موقع پر ضلع لاہور میں سیمینار کا کامیاب انعقاد
لاہور (پریس ریلیز) عالمی یوم خواندگی کے حوالے سے آج لٹریسی ڈیپارٹمنٹ ضلع لاہور کے زیرِاہتمام ایک اہم سیمینار منعقد ہوا جس میں معزز مہمان خصوصی ڈاکٹر خرم شہزاد، ڈائریکٹرجنرل لٹریسی پنجاب، اور مہمان خاص پروفیسر ڈاکٹر عائشہ سلیم، اسسٹنٹ پروفیسر ایجوکیشن یونیورسٹی لاہور نے شرکت کی۔ اس موقع پر ضلع لاہور کے اسکولوں کے اساتذہ، لرنرز، مختلف محکمہ جات کے نمائندگان، سماجی تنظیموں کے اراکین اور میڈیا کے افراد نے بھرپور شرکت کی۔
تقریب کا آغاز ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (لٹریسی) لاہور، منصور اختر غوری کے افتتاحی کلمات سے ہوا، جس میں انہوں نے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ یہ تقریب عالمی یوم خواندگی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں محکمہ خواندگی و غیر رسمی بنیادی تعلیم کے زیراہتمام کی جانے والی تقریبات کا حصہ ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت ضلع لاہور میں 326 نان فارمل سکولز قائم ہیں، جن میں 17,000 سے زائد لرنرز زیر تعلیم ہیں۔ جلد ہی مڈل ٹیک اور تعلیم بالغان کے مراکز بھی قائم کیے جائیں گے، تاکہ مزید لوگوں کو تعلیم کے مواقع فراہم کیے جاسکیں۔ منصور اختر غوری نے کہا کہ لٹریسی موبلائزرز، ٹرینرز اور مانیٹرز سمیت تمام اسٹاف معیارِ تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں۔
مہمان خصوصی ڈاکٹر خرم شہزاد نے اپنے خطاب میں کہا، "آج کا دن دو حوالوں سے خاص ہے: یوم دفاع اور عالمی یوم خواندگی۔ اس سال کا تھیم 'کثیر السانی تعلیم اور امن کا فروغ' ہے، اور یہ دونوں اہداف صرف خواندگی کے ذریعے ہی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔" انہوں نے نان فارمل ٹیچرز کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ ہمارے ادارے کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور ان کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ انہوں نے اساتذہ کے اعزازیے میں اضافے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں مڈل ٹیک اسکولز کا آغاز کیا جا رہا ہے، جہاں 18 ماہ میں مڈل پاس کے ساتھ ہنر بھی سکھایا جائے گا۔
پروفیسر ڈاکٹر عائشہ سلیم نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محکمہ خواندگی کی کارکردگی کو سراہا اور کہا کہ "یہ ادارہ خاص طور پر ضلع لاہور کی ٹیم تعلیم کے فروغ میں قابلِ ستائش کردار ادا کر رہی ہے۔ ہم سب کو ناخواندگی کے خاتمے کے لیے اپنا حصہ ڈالنا ہوگا تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔"
تقریب کے دوران گورنمنٹ نان فارمل پرائمری سکول امین پارک کے بچوں نے مختلف ملی نغموں پر مبنی ٹیبلو پیش کیا، جسے شرکاء نے بے حد پسند کیا۔ نان فارمل سکول کے طالبعلم ریحان علی خان اور دیگر بچوں نے قوالی پیش کی، جو حاضرین کی دلچسپی کا مرکز بنی۔
تقریب کے اختتام پر بہترین کارکردگی دکھانے والے اساتذہ، طلباء اور لٹریسی موبلائزرز کو ایوارڈز سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ، تقریب کے اختتام پر شرکاء نے خواندگی آگاہی واک میں بھرپور شرکت کی، جس کا مقصد معاشرے میں تعلیم کی اہمیت اور خواندگی کے فروغ کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا تھا۔ تقریب میں کمپئیرنگ کے فرائص اورنگزیب رامے نے ادا کیے۔
0 notes
emergingkarachi · 28 days
Text
کراچی کا ماضی
Tumblr media
آج میں آپ کو ڈیڑھ سو برس پیچھے لے جانا چاہتا ہوں۔ آپ کو ماضی کی سیر کرانا چاہتا ہوں۔ آپ کو ویزا کی یا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ گزرا ہوا کل دیکھنے کے لیے آپ کو کسی قسم کا ٹکٹ خریدنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیتے ہوئے ادوار کی طرف ہوائی جہاز، ریل گاڑی اور بسیں نہیں جاتیں، میں آپ سے دنیا دکھانے کا وعدہ نہیں کرتا۔ ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے کا بھیانک آنکھوں دیکھا حال میں آپ کو سنا نہیں سکتا۔ ہندوستان کے ایک جزیرہ انڈومان پر انگریزوں نے روح فنا کردینے جیسی جیل بنائی تھی۔ سمندر میں گھرے ہوئے انڈومان جیل میں سیاسی قیدیوں کو پابند سلاسل کیا جاتا تھا۔ انڈومان جیل میں آپ کو نہیں دکھائوں گا۔ میں آپ کو یہ بھی نہیں دکھائوں گا کہ شہنشاہ ہند اورنگزیب نے کس بیدردی سے اپنے تین بڑے بھائیوں کو قتل کروا دیا تھا۔ ماضی کی جھلک دکھاتے ہوئے میں اس بات پر بحث نہیں کروں گا کہ ہندو اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے انگریز نے ریلوے پلیٹ فارم اور ریل گاڑیوں میں ہندو پانی اور مسلمان پانی، ہندو کھانے اور مسلمان کھانے کا رواج ڈالا تھا۔ میں آپ کو یہ بھی نہیں بتائوں گا کہ تب کراچی سے کلکتہ جانے کے لیے آپ کو ویزا کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ آپ کو صرف ریل گاڑی کا ٹکٹ خریدنا پڑتا تھا۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ اگست انیس سو سینتالیس سے پہلے ہندوستان میں رہنے والے ہم سب لوگ پیدائشی طور پر ہندوستانی ہوتے تھے۔
کراچی، لاہور اور پشاور میں پیدا ہونے والے بھی پیدائشی ہندوستانی Born Indian ہوتے تھے۔ مدراس سے بمبئی آنے جانے پر روک ٹوک نہیں ہوتی تھی۔ ایسا ہوتا تھا ہمارے دور کا برصغیر، کڑھنے یا میری نسل کو برا بھلا کہنے سے زمینی حقائق بدل نہیں سکتے۔ اگست 1947ء سے پہلے ہندوستان کا بٹوارہ نہیں ہوا تھا۔ اگست 1947ء سے پہلے پاکستان عالم وجود میں نہیں آیا تھا۔ لہٰذا اگست 1947ء سے پہلے ہم سب نے ہندوستان میں جنم لیا تھا۔ تب کراچی، لاہور اور پشاور برٹش انڈیا کا حصہ تھے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے، گھڑی ہوئی کہانی نہیں ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں ہمارا اہم اور بہت بڑا حصہ ہے۔ میں نے سیانوں سے سنا ہے کہ اپنے تاریخی اور ثقافتی حصہ سے دستبردار ہونا کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہوتا۔ اس لمبی چوڑی اور نامعقول تمہید کا مطلب اور مقصد بھی یہی ہے جو ابھی ابھی میں نے آپ کے گوش گزار کیا ہے۔ میں آپ کو سیر کروانے کے لیے لے جارہا ہوں مچھیروں کی چھوٹی سی بستی کی طرف۔ یہ بستی نامعلوم صدیوں سے بحر عرب کے کنارے آباد ہے۔ اب یہ چھوٹی سی بستی ایک بہت بڑے تجارتی شہر میں بدل چکی ہے۔ 
Tumblr media
یوں بھی نہیں ہے کہ ڈیڑھ سو برس پہلے مچھیروں کی چھوٹی سی بستی گمنام تھی۔ تب ٹھٹھہ معہ اپنے اطراف کے مشہور تجارتی شہر ہوا کرتا تھا۔ بیوپاری اپنا سامان ملک سے باہر بھیجتے تھے اور بیرونی ممالک سے برآمد کیا ہوا سامان اپنے ملک سندھ میں بیچا کرتے تھے۔ تاریخ کے بد خواہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ سندھ انگریز کے آنے سے پہلے خودمختار ملک تھا۔ سندھ کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا۔ اٹھارہ سو تینتالیس میں سر چارلس نیپئر نے فتح کرنے کے بعد سندھ کو ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دیکھنے کے لیے بمبئی یعنی ممبئی صوبے سے ملا دیا تھا ۔ اس ��رح انیس سو تینتالیس میں سندھ ہندوستان کا حصہ بنا۔ یہاں مجھے ایک تاریخی بات یاد آرہی ہے بلکہ دو باتیں یاد آرہی ہیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے موقع پر کسی مسلمان سیاستدان نے انگریز سے سوال نہیں اٹھایا کہ انگریز کی فتح سے پہلے سندھ ایک الگ تھلگ خودمختار ملک تھا۔ تقسیم ہند سے پہلے سندھ کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا۔ کسی بھی موقع پر کسی سیاستدان نے یہ سوال انگریز سے نہیں پوچھا تھا کہ آپ لوگوں نے سندھ ایک آزاد ملک کے طور پر جنگ میں جیتا تھا، ہندوستان کے ایک حصے یا صوبہ کے طور پر نہیں۔ 
اب آپ سندھ کا بٹوارہ ہندوستان کے ایک صوبہ کے طور پر کیوں کررہے ہیں؟ آپ سندھ کو ایک آزاد ملک کی طرح آزاد کیوں نہیں کرتے؟ اسی نوعیت کی دوسری بات بھی ہمارے سیاستدانوں نے انگریز سے نہیں پوچھی تھی۔ انگریز نے مکمل طور پر جب ہندوستان پر قبضہ کر لیا تھا تب ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ یہاں سے کوچ کرتے ہوئے آپ نے ہندوستان کے ٹکڑے کیوں کر دیے؟ انڈونیشیا، ملائیشیا، سری لنکا، نیپال وغیرہ کی طرح ایک ملک کے طور پر ہندوستان کو آزاد کیوں نہیں کیا؟ اور سب سے اہم بات کہ آپ نے ہندوستان مسلمان حکمراں سے جیتا تھا، ہندوئوں سے نہیں۔ جاتے ہوئے آپ نے ہندوستان کی حکومت مسلمانوں کے حوالے کیوں نہیں کی تھی؟ ڈیڑھ سو برس بعد ایسے سوال فضول محسوس ہوتے ہیں۔ انگریز میں بے شمار اچھائیاں تھیں، بے شمار برائیاں تھیں۔ انہوں نے بھرپور طریقے سے ہندوستان پر حکومت کی تھی۔ کراچی کو ننھا منا لندن بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ جنہوں نے 1947ء کے لگ بھگ لندن دیکھا تھا، وہ کراچی کو چھوٹا سا لندن کہتے تھے اور پھر کراچی جب ہمارے ہتھے چڑھا، ہم نے انگریز کی نمایاں نشانیاں غائب کرنا شروع کر دیں۔ 
دنیا بھر کے مشہور شہروں میں آج بھی ٹرام رواں دواں ہے۔ ہم نے ٹرام کی پٹریاں اکھاڑ دیں۔ ٹرام اور ڈبل ڈیکر بسوں کا رواج ختم کر دیا۔ مشرقی اور مغربی امتزاج کی ملی جلی عمارتوں میں ایک عمارت کا نام تھا پیلس ہوٹل، یہ انتہائی خوب صورت عمارت تھی، ہم نے گرا دی۔ ایسی کئی عمارتیں ایلفنسٹن اسٹریٹ اور وکٹوریا روڈ صدر پر شاندار انداز میں موجود ہوتی تھیں۔ ہم نے ان عالی شان عمارتوں کا ستیاناس کر دیا۔ جانوروں کے لیے شہر میں جابجا پانی کے حوض ہوا کرتے تھے، ہم نے اکھاڑ دیے۔ کراچی سے ہم نے اس کا ماضی چھین لیا ہے۔
امر جلیل
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
imtiyazkhan008 · 1 month
Text
مقصد زندگانی کی خاطر زندگی کو بدلنا پڑے گا
انسان نے جوں جوں ترقی کی ،مختلف شعبہ ہائے زندگی میں آگے بڑھنے کی دوڑ شدت اختیار کرتی چلی گئی۔ کامیابی کے حصول کیلئے جدوجہد کرنا انسان کی فطری خواہش ہے اور کچھ ایسی بْری بھی نہیں لیکن کامیابی کے معیارات انتہائی مبہم اور غیر واضح ہو گئے ہیں۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے یا یوں کہئے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے مقابلے کی فضا نے زندگی کے ہر شعبے کواپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ Continue reading مقصد زندگانی…
0 notes
meta-bloggerz · 3 months
Text
فواد خان کی 8 سال بعد بالی ووڈ میں واپسی، ہیروئن کون؟
فواد خان نے سال 2014 میں فلم ‘خوبصورت’ سے بالی ووڈ میں ڈیبیو کیا تھا : فوٹو : فائل پاکستان سمیت پڑوسی ملک بھارت میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے والے معروف اداکار فواد خان اپنی نئی فلم کے ساتھ آٹھ سال بعد بالی ووڈ میں واپسی کررہے ہیں۔ فواد خان کا شمار پاکستان کے میگا اسٹارز میں ہوتا ہے، اُنہوں نے نہ صرف ڈراموں بلکہ فلموں میں بھی اپنی شاندار اداکاری سے خود کو منوایا، اُنہوں نے بالی ووڈ میں…
0 notes
urdu-poetry-lover · 4 months
Text
نہ ملا ' دل کا قدر دا ن کوئی زمانے میں
یہ شیشہ ٹوٹ گیا ' دیکھنے دکھانے میں
جی میں آ تا ھے ' اک روز شمع سے پوچھوں
مزہ کس میں ھے '. جلنے یا جلانے میں
6 notes · View notes
online-urdu-news · 4 months
Text
گوگل ٹیکنالوجی کا کہنا ہے کہ پروموشن کے لیے مسترد ہونا 'بھیس میں برکت' تھا: 'میں جانتا تھا کہ مجھے دکھانے کی ضرورت ہے...'
گوگل کے ایک ماہر نے بتایا کہ اسے تنظیم میں پروموشن کے لیے مسترد کر دیا گیا جو بالآخر “بھیس میں برکت” ثابت ہوئی۔ اس تکنیکی نے اکتوبر 2011 میں گوگل میں شمولیت اختیار کی اور کہا کہ یہ “ایک مشکل آغاز تھا کیونکہ میرے پاس دو ہفتوں سے ٹیم نہیں تھی۔ جب میں نے آخر کار ایسا کیا تو میرے مینیجر نے میرے کردار میں دو ماہ چھوڑ دیئے۔ میرے پاس کئی عبوری مینیجر تھے۔ میں بدقسمت تھا – میرے کسی بھی دوست نے جو اسی وقت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes