Tumgik
#ظاہر
apnibaattv · 1 year
Text
دہشت گردی کے خلاف بلوچستان کی قربانیوں کو ظاہر کرنے کے لیے 'ڈھائی چال'
اسلام آباد – فیصل پروڈکشنز کی آنے والی پاکستانی فیچر فلم ڈھائی چال گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بلوچستان کے بہادر محب وطن لوگوں کی قربانیوں اور حوصلے کی ان سنی کہانی کو ظاہر کرنے جا رہی ہے۔ اس فلم کی ہدایت کاری تیمور شیرازی نے کی ہے اور اسے ڈاکٹر عرفان اشرف نے پروڈیوس کیا ہے۔ میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ ایک انٹرایکٹو سیشن میں، ڈاکٹر اشرف نے کہا کہ فلم کا بنیادی موضوع بلوچستان کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdu-e24bollywood · 1 year
Text
اپھار سنیما کے سانحہ کو ظاہر کرنے کے لیے 'ٹرائل از فائر پلیس'
اپھار سنیما کے سانحہ کو ظاہر کرنے کے لیے ‘ٹرائل از فائر پلیس’
فائر پلیس ٹریلر کے ذریعے آزمائش: ابھے دیول کی آنے والی نیٹ سیکوئنس ‘ٹرائل از فائر پلیس’ کا سب سے موثر ٹریلر سامنے آ گیا ہے۔ اس سیکونس کا ٹریلر زیادہ تر اپھار سنیما کے چولہے کے واقعے کی سچی کہانی پر مبنی ہے۔ ٹریلر میں خاندان کے افراد کو متعدد لوگوں کے ذریعے چھوڑنے کی کہانی کو دکھایا گیا ہے، جو دل کو چھونے کے علاوہ جذباتی بھی ہے۔ فائر پلیس ٹریلر کے ذریعے آزمائش ہمیں یہ بتانے کی اجازت دیں کہ ‘ٹرائل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
سعودی عرب نے پاکستان میں آئل ریفائنری کے قیام پر آمادگی ظاہر کی ہے، وزیراعظم
سعودی عرب نے پاکستان میں آئل ریفائنری کے قیام پر آمادگی ظاہر کی ہے، وزیراعظم
اسلام آباد(نمائندہ عکس)وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی ولی عہد و وزیراعظم محمد بن سلمان نے پاکستان میں آئل ریفائنری کے قیام کے لیے سرمایہ کاری کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، آئل ریفائنری کا منصوبہ وہی منصوبہ ہے جو 2019 میں وہ خود لے کر آئے لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی ج، وہ بد دل ہوگئے اور باقی ممالک میں جا کر انہوں نے بڑی سرمایہ کاری کی، اب بڑی مشکل سے ہم ان کو لے کر آئے ہیں، اب آئل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
quran0hadees · 2 years
Text
Tumblr media Tumblr media
Hadees
دکھ غم ظاہر کرنے کا طریقہ
0 notes
forgottengenius · 3 months
Text
کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
Tumblr media
ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام کریں گے اور زیادہ تر کام محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔ 1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ کے مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔
جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘ ’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘ سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔ 
Tumblr media
ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔ دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طرف جانا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔ 
مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے لیے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملا دیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔ فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہو گی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سوال پر دنیا کا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔ اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔ مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بات کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔ تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت کی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘ لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہو گی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو ��ہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔ لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔ لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اینڈریو گرفن  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
38 notes · View notes
0rdinarythoughts · 7 months
Text
Tumblr media
میں بہت باریک بیں ہوں، یہ اور بات ہے کہ میں اس بات کو ظاہر نہیں کرتا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں، ایک ایک نقل و حرکت اور لفظوں پہ، بلکہ نگاہوں کے تیور پہ بھی نظر رکھتا ہوں، یہ ساری چیزیں میرے لیے اہمیت رکھتی ہیں۔ سو اگر کبھی تمہیں لگے کہ میں پہلے کی طرح نہیں رہا تو یاد رکھنا ایسی ہی کچھ معمولی باتیں اس کے پیچھے کارفرما ہوں گی۔
I'm very subtle, it's more that I don't show it. I pay attention to small things, every movement and words, but also the direction of the eyes, all these things are important to me. So, if you ever feel that I am not the same as before, remember that some small things like this are behind it.
43 notes · View notes
amiasfitaccw · 1 month
Text
داماد کی خواہش
شازیہ میرے سامنے بیٹھی تھی. اور میں پریشانی کے عالم میں اسکی شکل تک رہی تھی. میری بچی کی آنکھوں میں آنسو تھے. اور میں جانتی تھی کہ اسکا دل بہت چھوٹا سا ہے
زرا سی کوئی اونچ نیچ ہو اور اسکا دل ہول جاتا تھا.
اور آج وہ جس مصیبت سے دوچار ہوئی تھی. تو اس پر تو بڑے بڑے گھبرا جاتے ہیں. میری اکلوتی بیٹی تو میرے پاس بڑے ناز ونعم میں پلی تھی.
شازیہ کی شادی کو تین ہی مہینے ہوئے تھے. وسیم کا رشتہ شازیہ کیلیے آیا. اور میں نے جب وسیم کو دیکھا. تو وسیم مجھے پہلی ہی نظر میں بھاگیا. باقی دیکھ پرکھ میرے میاں اور دیوروں نے کرلی تھی. اور وہ بھی ہر طرح سے مطمئن تھے. اور یوں صرف تین ماہ کے عرصے میں ہی شازیہ کی شادی وسیم سے کردی گئی.
شادی کے دن شروع شروع کے تو بہت ہی پیار سے گزررہے تھے
بچی میکے آتی. تو اسکے چہرے پر جیسے قوس قزح بکھری ہوتی. خوشی اور مسرت اسکے انگ انگ سے پھوٹ پڑ رہی ہوتی تھی.
لیکن........ آہستہ آہستہ وسیم کے روئیے میں تبدیلی آتی گئی.
اور اسکا رویہ شازیہ سے سرد ہوتا گیا. پہلے پہل تو میں نے اسکو کوئی اہمیت نہ دی. لیکن اب معاملہ آگے بڑھ چکا تھا.
میں بیٹی کی آنکھ میں آنسو برداشت نہیں کرسکتی تھی.
سو میں نے وسیم سے بات کرنیکا فیصلہ کرلیا.
اور آج دوپہر کو میں نے وسیم کو گھر بلوایا تھا. کیونکہ بوقت دوپیر میرے میاں جوکہ بیمار رہتے ہیں. سورہے ہوتے ہیں. اور میرے دونوں بیٹے رضوان اور عمران اپنے اپنے آفسز میں ہوتے ہیں .
اور تقریبا تین بجے دروازے کی بیل بجی. میں وسیم کو ڈرائینگ روم میں لے آئی. اسکو بٹھایا اور اسکے لیے کچھ ناشتے کا سامان میز پر سجادیا. وسیم کیا بات ہے.؟ تمہارا رویہ شازیہ سے کچھ سرد ہے . کیا کوئی بات ہوئی ہے.؟ میں نے اسکے بلکل قریب ہوکر رازداری سے دریافت کیا. اور اسکے جواب میں وسیم نے جو کچھ کہا. مجھے سن کر یقین نہیں آرہا تھا. میں حیرت اور تعجب کے مارے ہونقوں کی طرح اس کی شکل تک رہی تھی. وسیم کہہ رہا تھا کہ بات یہ ہے میں نے یہ شادی صرف اور صرف آپکی وجہ سے کی ہے. کیونکہ مجھے تو آپ اچھی لگی تھیں. ظاہر ہے کہ میں تو وسیم سے شادی کر نہیں سکتی تھی. میرے میاں موجود تھے . اور میرے تو بچے جوان تھے. یعنی .......مجھ تک پہنچنے کیلیے میری بیٹی کو چارہ بنایا گیا تھا. میں آپکو پانا چاہتا ہوں عشرت بیگم. مجھ کو آپکی بیٹی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے وسیم کے مسکراتے ہوئے کہے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے. اور میں گم سم بیٹھی تھی. کہ جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہ نکلے. وسیم......یہ کیسے ممکن ہے.؟ میں تمہاری ساس ہوں. تمہاری بیوی کی ماں ہوں میں.......میں نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا.
Tumblr media
جانتا ہوں آپ میری ساس ہیں. لیکن آپ ایک عورت بھی ہیں اور میری طلب ہر رشتے ناطے سے آزاد ہے. اور میں نے آپکو صاف الفاظ میں بتادیا ہے کہ میں نے یہ شادی ہی صرف آپکو حاصل کرنے کیلیے کی ہے.
وسیم نے میرا ہاتھ تھام کر کہا. اور اسکے ساتھ ہی اس نے مجھے اپنی بانہوں میں بھرلیا. سرعت کے ساتھ اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے پیوست کرلیے.
بری بات.......وسیم یہ کیا کررہے ہو......؟
میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے الگ کیے.
اگر آپ مجھے نہ ملیں. تو یاد رکھئے گا. کہ میرا اور شازیہ کا تعلق ایسا ہی نام کا رہیگا.....بس.....!
اور گویا اس نے دوٹوک الفاظ دھمکی دیدی.
وسیم.......بات کو سمجھنے کی کوشش کرو.......میری گھگھی بندھ گئی تھی. مجھے اندازہ ہورہا تھا. کہ اگر داماد کی خواہش پوری نہ ہوئی. تو بیٹی کو طلاق بھی ہوسکتی ہے.
مجھ کو جو بتانا تھا میں نے آپکو بتادیا آگے آپکی مرضی.
اور اتنا کہکر وہ اٹھا. اور بےنیازی سے چلا گیا.
اور میں سوچوں کے سمندر میں گھری رہ گئی تھی. ایک طرف داماد کی خواہش تھی. اسمیں جتنی شدت میں دیکھ چکی تھی. اسکے بعد کچھ پوچھنا گچھنا بیکار ہی تھا. دوسری طرف بیٹی تھی. اگر وسیم کی خواہش پوری نہ ہوئی. تو اسکا گھر برباد ہونا یقینی تھا.
میں ایک خوبصورت اور جاذب نظر عورت تھی. شوہر بیمار رہتے تھے. اور یہی وجہ ہے کہ میں اپنی جنسی زندگی میں ایک مرد کی کمی شدت سے محسوس کرتی تھی. میرا بھی دل تھا. جو چاہتا تھا. کہ مجھے کوئی خوب شدت سے چودے.
اور میری قسمت .....کہ یہ مرد میرے سامنے آچکا تھا.
لیکن......کس روپ میں سامنے آیا تھا..........داماد کے........؟
میں شش و پنج میں تھی. بات ایسی تھی. کہ کسی سے مشورہ بھی نہیں کرسکتی تھی. کوئی سنتا تو کیا کہتا.....؟
لہذا....یہ فیصلہ مجھے ہی کرنا تھا. اور بالاآخر میں نے بیٹی کا گھر بچانے کا فیصلہ کرلیا.
وسیم......مجھے اپنی بچی کا گھر بچانے کیلیے تمہاری یہ شرط منظور ہے. لیکن مجھے اس بات کی ضمانت دو . کہ تمہارا رویہ شازیہ کیساتھ پہلے جیسا ہی ہوجائے گا.........؟؟؟
جی بلکل....آپ اسکی فکر نہ کریں....جب وجہ ہی نہیں رہیگی سردمہری کی تو موڈ تو اپنے آپ ہی اپنے آپ صحیح ہونا ہی ہے نہ.....!
وہ اپنی فتح پر مسکرا رہا تھا.....اور میں گم سم تھی.
لیکن.......میری ایک شرط ہے وسیم......اس بار میں نے دل کڑا کر کہا.
جی کہیے.....اس کی آواز گونجی.
وسیم تمکو جو کرنا ہے کرلو....میں وہ سب کچھ کروائونگی جو تم چاہتے ہو.......لیکن صرف ایک بار......تمہاری خواہش پوری کرنے کی خاطر.....اپنی بیٹی کی خاطر......بس....دیکھو میں تمہاری بات رکھ رہی ہوں نہ.....اب تم بھی میری بات یہ بات مانو.........!
اور اتنا ہی کہ کر رسیور فون پر رکھ کر میں صوفے کی پشت پر سر ٹکا آنکھیں بند کرکے بیٹھ گئ. آنسو میری آنکھوں میں ڈبڈبانے لگے.......!
Tumblr media
دو دن گزر چکے تھے...... مجھ کو وسیم سے حامی بھرے ہوئے.
اور میں بیٹھی یہی سوچ رہی تھی کہ جو کام کرنا ہے..وہ تو کرنا ہی ہے......سو داماد سے دریافت کیا جائے. کہ وہ کب اپنی ساس کو نوش فرمانا پسند کرینگے,,,؟
وسیم کو فون لگا چکی تھی میں....تیسری بیل پر اس نے فون ریسیو کیا.
جی جناب.......کہئیے.....اس کی شوخ آواز ابھری.
وسیم میں چاہتی ہوں کہ جلد از جلد تمہاری خواہش پوری کردی جائے......میں چاہتی ہوں تم مجھکو بتادو . کب اور کہاں.....؟
میں نے صاف اور سپاٹ لب و لہجے میں کہا.
آپ دوپہر کو فارغ ہوتی ہیں نہ..... آپ یہ کریں گھر آجائیں میرے پاس....ٹھیک ہے...؟.....وہ خوش خوش بولے.
لیکن گھر میں شازیہ موجود ہوگی. اسکی موجودگی میں یہ سب کروگے میرے ساتھ.....میں نے جل کر کہا.
جی نہیں......بات یہ ہے. کہ شازیہ کل گیارہ بجے ہی پڑوس والوں کے ساتھ فارم ہاؤس جارہی ہیں. اور میں گھر پر بلکل اکیلا ہی ہونگا....!
اس نے پوری بات بتائی.
اوہ.......اچھا ٹھیک ہے. شازیہ کے نکلتے ہی مجھے کال کرکے بتادینا.....میں تمہارے پاس پہنچ جاؤنگی.
اور اتنا کہہ کر میں نے فون بند کردیا.
اور دوسرے دن دوپہر کے وقت میں تیار تھی. نہا کر کپڑے بدل کر میں ہلکا سا میک اپ کرکے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ رہی تھی. میں بلکل ٹھیک نظر آرہی تھی.ظاہر ہے کہ میں جو کام کرنے کیلیے جارہی تھی. وہ غلط تھا. مگر میں مجبور تھی. اگر اجاڑ ویران حالت میں جاتی تو شائد وسیم آپے سے باہر ہی نہ ہوجاتا.
اور آدھے گھنٹے بعد ہی میں وسیم کے سامنے تھی.
بیٹی پڑوس کے لوگوں کیساتھ پکنک پر جاچکی تھی. اور ساتھ ہی وسیم بھی نہا دھو کر تیار تھا. وہ مجھ کو اپنے ساتھ اپنے بیڈروم میں ہی لیکر آگیا. میں اس کے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھی تھی.
وسیم میرے لیے سوفٹ ڈرنک لے آیا. جو میں نے اس سے لیکر فورا ہی اپنے لبوں سے لگالیا اور گلاس خالی کردیا.
اب میں بہت بہتر محسوس کررہی تھی. میں نے سوالیہ نگاہوں سے وسیم کی طرف دیکھا. کہ وہ کیا چاہتے ہیں.؟
اور غالبا وہ میرا مطلب جان گیا تھا. یہی وجہ ہے کہ وہ میرے پاس ہی نیم دراز تھا. اور اس نے میری کمر میں ہاتھ ڈال کر مجھے اپنے سے چپکالیا. اور اس کے لب میرے لبوں سے پیوست ہوگئے. اب وہ میری زبان کو اپنے لبوں سے چوس رہا تھا.
وسیم......تم کو میری بات یاد ہے نہ....میں نے ایک لمحے کیلیے اس کو روک کر کہا.
جی.....مجھے آپکی شرط اور اپنا وعدہ یاد ہے...انھوں نے فورا ہی جوابا کہا.....اور فورا ہی اس نے پھر میری زبان کو چوسنا لگا.
Tumblr media
اور اسی دوران اس کے ہاتھ میرے جسم پر حرکت میں آگئے.
انھوں نے میری قمیض اوہر کرنی شروع کی. میں نے بھی اپنے دونوں ہاتھ اوپر کرکے اپنی قمیض اتروانے میں اس کی مدد کی......اور دوسرے ہی لمحے میری قمیض اتر کر فرش پر گر چکی تھی.......اب اس کا ہاتھ میری شلوار پر تھا.
انھوں نے ایک ہی جھٹکے میں میرا ازاربند کھینچا. اور میری شلوار بھی کھولدی.
اور یوں اب میں صرف ایک Bra میں رہ گئی تھی.
کالے رنگ کا نیٹ کا Braجس میں سے میرے ممے صاف نظر آرہے تھے....... وسیم مجھے ننگا دیکھکر بہت ہی جذباتی ہورہا تھا. یہی وجہ ہے کہ اس نے فورا ہی اپنے کپڑے بھی اتار پھینکے. اور مجھے بیڈ پر لٹا کر میرے بدن کو اپنے بازووں میں جکڑا. اور میرے ہونٹوں اور گالوں کو دیوانہ وار چوسنے اور چاٹنے لگا. اور مجھے ایسا لگنے لگا. کہ جیسے پیاسی زمین پر بارش کے قطرے ٹپ ٹپ کرکے گررہے ہوں.
اس کی زبان اور ��ونٹ بہت ہی گرم ہورہے تھے. ہونٹوں سے سانس اگ کیطرح نکل رہی تھی. اور میں بستر پر بلکل چت لیٹی یہ سب کروارہی تھی.
اوووووہ.........اوووووف........اوووووووف.
میں اپنے جذبات پر بند باندھنے کی کوشش کررہی تھی.
یہ جتانا چاہ رہی تھی. کہ یہ سب میں مجبورا کررہی ہوں.
وسیم کے ہاتھ میرے بدن کو سہلارہا تھا. ہونٹ میرے ہونٹوں اور گالوں کو چوم رہا تھا. وہ مجھ سے لپٹے ہوئے تھے. اس طرح کہ جیسے وہ میرے اندر اتر چکے ہوں.
اور میری اپنی یہ کیفیت ہورہی تھی. کہ میرے اندر کی عورت اس پہلے ہی مرحلے پر مستی بھری انگڑائیاں لینے لگی تھی. دل پکار پکار کر کہ رہا تھا کہ عشرت بیگم مزے کرلو. جو کام کرنا ہی کرنا ہے. تو پھر اس کو بھرپور مزے لیکر کیا جائے تو کیا حرج ہے.؟
میں گو مگوں کی کیفیت میں وسیم کے نیچے تھی.
اور اب وسیم نیچے ہوتے ہوتے میرے گلے کو چومنے لگا تھا.
اوووف......گلے کو چومنے اور چوسنے میں مزہ ہونٹوں کو چوسنے سے بھی زیادہ مل رہا تھا.
میں بے اختیار ہی سسک پڑی........ہااااااااااااہ............!
اور میں نے اپنے ہاتھ پھیلا لئے. اور مجھ کو محسوس ہونے لگا. کہ میں کسی بھی وقت یہ سب خوشی سے کرواسکتی ہوں.
وسیم چند ہی لمحوں میں گلے سے ہوتے ہوتے مزید نیچے آرہا تھا. اب وہ Bra اتار کر میرے مموں کو چوس رہا تھا. وہ کبھی ایک دودھ اپنے منھ میں لیکر اس کو چوستا اور دوسرے والے کو اپنی انگلیوں سے دباتا. تو کبھی دوسرے والے کو چوستا
اور پہلے والے کو دباتا.........!
اور ادھر میری حالت غیر ہورہی تھی......!
Tumblr media
جسم چوسے اور چاٹے جانے سے گرم ہوچکا تھا. دل کی دھڑکن تیز ہوچکی تھی. انگ انگ میں میں بجلیاں سی دوڑتی محسوس ہورہی تھیں. مجھ کو لگ رہا تھا. کہ وسیم کا لورا میری چوت میں گھسنے سے پہلے ہی میں اپنی شرم کو بالائے طاق رکھکر وسیم کو اپنے سے لپٹا کر اس کا برابر کا ساتھ دینے لگوں گی.
میں ایک سیدھی سادھی گھریلو عورت تھی. تین بچوں کی ماں تھی. لیکن میرے میاں نے مجھ کو بلکل واجبی انداز میں ہی چودا تھا. اور آج میں جس طرح چدوانے کے عمل سے گزر رہی تھی. اسطرح کا میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا......!
اور اب وہ میری چھاتیاں خوب چوس چوس کر میرے پیٹ پر گہرےگہرے بوسے لے رہا تھا. اور اس کے بوسے لینے سے مجھے اپنا پیٹ لرزتا ہوا محسوس ہورہا تھا.
میں "ہاں. اور. ناں " کی اضطرابی کیفیت میں الجھی ہوئی تھی.
اور جب وہ پیٹ سے نیچے ہوتے ہوئے میری چؤت پر آیا اور میری ٹانگیں چیریں. اور اپنے ہونٹ چؤت پر گاڑ کر اس کو چوسنے لگا......وہ کبھی چؤت کو اوپر سے چوستا تو کبھی اس کے اندر زبان ڈال کر اسکا اندرونی حصہ چاٹنے لگتا.
اور مجھ کو اب احساس ہورہا تھا. کہ میرے ضبط کا بندھن اب ٹوٹا ........اور جب ٹوٹا..........کیونکہ مجھے اچانک ہی احساس ہوا کہ میری چؤت نے لذت اور جوش میں آن کر اپنے اندر سے پانی چھوڑنا شروع کردیا ہے. جو اس بات کی دلیل تھی. کہ یہ بھرپور چؤدائی چاہتی ہے. ہر رشتہ ناطہ کو بالائے طاق رکھکر...........!
وسیم میری ٹانگوں کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے میری چؤت پر جھکا ہوا اس کو اپنی زبان سے گرم دہکتا ہوا انگارہ بنارہا تھا. میرے بدن پر لرزہ طاری تھا.
اور پھر بالاآخر..........میں نے بھی اپنی شرم کو بالائے طاق رکھ کر دوٹوک فیصلہ لیلیا.
میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے وسیم کے سر کو پکڑا. اور مزے کے مارے اس کے سر کو اپنی چؤت کے اور اندر کرنے کی کوشش کرنے لگی....اور ساتھ ہی میرے ہونٹوں سے پرکیف آہیں نکلنے لگیں. اور وہ بھی ایسی کہ کمرہ میری سسکیوں سے گونجنے لگا. اور میں نے وسیم سے اپنے رشتے ناطے کا لحاظ ایک طرف رکھ کر اپنا آپ اس کے حوالے کردیا.
وسیم......وسیم........اوووہ جانوں .....یہ کیا کررہے ہو تم...
میری جان میں تو ساس ہوں تمہاری.........یہ کیا کردیا تم نے مجھے.....میرا دم نکال دیا تم نے تو مزے کے مارے..........
اور دوسری طرف وسیم میری غیر متوقع رضامندی اور اپنی کامیابی پر پھولے نہیں سمارہا تھا.
وہ دوزانو ہوکر بیٹھا. میرے بھاری چوتڑوں کو اوپر اٹھایا. اور اپنی گرفت میں میری کمر کو لے کر زبان پھر سے میری چؤت میں گھسائی اور اس کو چاٹنے لگا.
میرا دھڑ بستر پر لگا ہوا تھا. اور ٹانگیں فضاء میں معلق اور ٹانگوں کے درمیان میں اس نے اپنا سر پھنسایا ہوا. اور دیوانہ وار میری چؤت کو چوس چوس کر پاگل کررہا تھا.
میں جو کچھ دیر پہلے یہ سوچ کر وسیم کے نیچے لیٹی تھی.
کہ اپنے تاثرات سے یہی ظاہر کرونگی. کہ میں مجبور ہوکر یہ سب کروارہی ہوں. اب مزے میں ڈوب چکی تھی. بند آنکھوں میں لطف کے رنگ اتررہے تھے. اور لبوں سے آہیں اور سسکیاں نکل رہی تھیں . چہرے پر ماتمی تاثرات کی جگہ شرمیلی سی مسکراہٹ نے لے لی تھی. کہ اب داماد جی میری چوت میں اپنا تنا لؤڑا چڑھائیں گے تو کتنا مزہ آئیگا.
میں یہ سوچکر ہی شرمائے جارہی تھی.
Tumblr media
میری چوت کو چوس چوس کر بھرپور طریقے سے وسیم نے اسکو گرم بھی کیا. گیلا بھی کیا. وہ اس قابل ہوگئی تھی. کہ باآسانی لؤڑا اپنے اندر سمو سکے.
وسیم نے میری چؤت چسائی روکی . اور میرے چہرے کے پاس آن کر اپنا لؤڑا میرے سامنے کردیا.
وسیم چودو نہ آپ مجھے...میں نے شرمائے ہوئے لہجے میں کہا.
پہلے آپ کو میرا لؤڑا چوسنا ہوگا.....اس نے خمار آلود لہجے میں کہا.
وسیم.....نہیں نہ.......میں نے تمہارے سسر کا بھی کبھی نہیں چوسا.......میں نے انھیں دھیرے سے سمجھایا.
تو داماد کا چوس لیں.....کیا آپ کو میرے ساتھ مزہ نہیں آرہا.
اس کے لہجے میں پتہ نہیں کیا تھا. کہ میں انکار نہ کرسکی. میں نے اپنے لبوں کو کھول لیا.اور اس نے اپنا لؤڑا میرے منھ میں داخل کردیا.
میں زندگی میں پہلی بار لؤڑا چوس رہی تھی. لیکن پہلی ہی بار میں مجھے لؤڑا چوسنا بہت ہی اچھا لگ رہا تھا. میں بلکل لولی پوپ کی طرح اس کو چوس رہی تھی.
دھیرے دھیرے میرے ہونٹ اس کو اپنے منھ میں اوپر نیچے کررہے تھے. اس کو چوس کر مجھے یہ بھی معلوم ہوا. کہ پورے بدن میں سب سے زیادہ چکنی جلد لؤڑے کی ہی ہوتی ہے. .......میری پوری کوشش تھی کہ صرف میرے ہونٹ ہی لؤڑے کو چھوتے رہیں. میرے دانت ہرگز اس پر نہ لگیں. ایسا نہ ہو کہ دانتوں کی رگڑ لگنے سے اس کو خراش وغیرہ نہ آجائے.
وسیم بہت ہی خوش لگ رہا تھا . وہ میرے لؤڑا چوسنے سے آہیں بھررہا تھا. جو بہت ہی پرکیف اور لذت بھری تھیں. اس کی ان آہوں اور پیار بھری سسکیوں سے مجھے حوصلہ مل رہا تھا. ہاں یہ ضرور تھا کہ لوڑا موٹا ہونے کی وجہ سے مجھ کو اپنا منھ بلکل پورا کھولنا پڑ رہا تھا. لیکن اب میں بھی ڈٹ چکی تھی.
کیونکہ وسیم جب اپنا لؤڑا میرے منھ سے نکالنے لگے. تو میں نے انکو روک دیا.
اور پھر میں اسکو پورا ہی اپنے منھ میں سمونے کی کوشش کرنے لگی. میں نے زور لگا کر لؤڑے کو اندر اور اندر لیا. اور آہستہ آہستہ لؤڑا میرے حلق کے اندر تک آگیا.
میں وہیں رک گئی. اور اپنے منھ سے باہر کیطرف سانس خارج کرنے لگی. اور نتیجہ ہی ہوا. کہ اس عمل سے وسیم کے لؤڑے کو گرمائی ملنے لگی. وہ مزے کے مارے بہکنے لگا.
اووووووہ... ممی...ممی.....یہ کیا کررہیں ہیں آپ... ممی میں تو یہیں پر ہی خالی ہوجاؤنگا.
وہ مزے کے مارے بول پڑا تھا.
اس کی یہ بات سنکر میں نے اس کے لؤڑے کو چھوڑ دیا.
وسیم .....چلو چؤدو مجھے.....میں نے اس کو گرین سگنل دیدیا
اور وسیم میرے اوپر لیٹا. اپنا لؤڑا میری چؤت پر رکھا. اور ساتھ ہی زور کا دھکا مارا.
حالانکہ میری چؤت چوسنے کی وجہ سے بلکل گیلی تھی.
لؤڑا اس میں ایک دم پھسلتا ہوا گیا تھا. مگر دھکا تو پھر دھکا ہی تھا. وہ پھر بھی اسقدر تگڑا محسوس ہوا تھا مجھکو. کہ لؤڑا اندر لینے کے نتیجے میں میری چوت لرز کر رہ گئی.
میں زور کی آہ بھر کر رہ گئی.
Tumblr media
وسیم .......پلیز.....رسانی سے زرا....پلیز.....میں نے اس کو سمجھایا.
فکر نہ کریں...... چؤدائی مزے اور لذت کا نام ہے. آپ کو صرف مزہ ملے گا......اور اس کی بات سن کر میں بے فکر ہوگئی.
اب اس نے اپنا لؤڑا ہولے ہولے آگے پیچھے چلانا شروع کیا .
اور میں مزے میں ڈولنے لگی. لؤڑا اندر سے میری چؤت کو رگڑ رہا تھا. لگ رہا تھا جیسے چؤت اندر سے حرارت خارج کررہی ہے. دھواں چھوڑ رہی ہے. میرے چہرے پر مسکراہٹ آچکی تھی. جو اس بات کا کھلا اظہار تھی. کہ میں اپنے داماد کی ممنون و مشکور تھی.
میں داماد کے نیچے لیٹی چدوارہی تھی.وہ پورے پیار کیساتھ اپنا لؤڑا میری چؤت میں دھکم دھکا چلا رہا تھا.
میں اس کو اپنی بانہوں میں لیے ہوئے تھی.
وسیم.....ڈارلنگ کیا شازیہ کو بھی ایسے ہی چودتے ہو.
میں مسکراتے ہوئے پوچھ رہی تھی.
جی نہیں.....آپکو دیکھ کر یہ سب کرنے کا دل چاہتا ہے. مجھ کو آپکی بیٹی میں کوئ کشش محسوس نہیں ہوتی.
اس نے صاف الفاظ میں کہا.
اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے دھکے لگانے کی رفتار تیز کردی.
مجھ کو لگا کہ کوئی لوہے کا گرم گرم ڈنڈا میری چؤت میں اوپر نیچے کسی پسٹن پمپ کی طرح آنا جانا کررہا ہو.
میں نے مضبوطی سے وسیم کی کمر میں بانہیں ڈال دیں تھیں. لؤڑا میری چوت کی آخری حد تک جاکر ٹکرا ریا تھا. جس سے مجھے اپنا سانس گھٹتا ہوا محسوس ہوتا. لیکن مجھے اسقدر لطف اور مزہ مل رہا تھا. کہ اس کے آگے اس درد کی کوئی اوقات نہیں تھی.
وسیم چؤد رہا تھا ....آہیں بھر رہا تھا مزے کے مارے.
میں چدوارہی تھی. اور مزے کے مارے سسک رہی تھی.
وسیم..... وسیم......اووووہ.....اووووووووہ.......
نڈھال کردیا تم نے تو مجھے......
میں مکمل طور پر اب اس کے قابو میں آچکی تھی.
مجھے معلوم تھا....آپ جیسی خوبصورت اور گرم عورت پہلی ہی چدائی میں میری ہوجائیگی.
وہ مجھے چؤدتے ہوئے مسکرا کر کہہ رہا تھا.
تم نے چؤدا بھی تو اسطرح ہے. مجھے میرے میاں نے کبھی اس طرح نہیں چؤدا.
میں بھی پوری طرح مزے میں آچکی تھی.
اور میں نے اتنی ہی بات کہی تھی کہ اچانک ہی مجھے اپنی چؤت میں شدید قسم کی مستی بھری گدگدی محسوس ہوئی. مجھ کو احساس ہوگیا کہ میں جانے والی ہوں. مارے جوش کے میرے منھ سے زور دار چیخ نکلی.
اووووووووووو.........اوووووووووووووو.......!
میرا پورا جسم اکڑ گیا . میں نے وسیم کو اپنی بانہوں میں مضبوطی سے جکڑ لیا. میرا ہورا بدن بری طرح لرزا ....اور
ساتھ ہی میری چؤت نے اپنے اندر سے لیس دار پانی باہر نکال دیا.
اور فورا ہی میں بے دم ہوکر بستر پر ڈھیلی پڑگئ.
لیکن وسیم مجھے برابر کے دھکے مار رہا تھا.
میں اپنے خالی ہونے سے پہلے جس طرح اس کا جم کے ساتھ دے رہی تھی. اب مجھے اس کا چؤدنا بوجھ لگ رہا تھا.
لگ رہا تھا کہ میرے ہوش و حواس جواب دے جائینگے.
وسیم پلیز بس ......بس کرو......بس کرو .......میں منمنائی.
آپ فارغ ہوئیں ہیں میں تو نہیں ہوا نہ....وہ مسلسل مجھے چودے ہی جارہا تھا..
رحم کرو.......وسیم میرا دم نکل جائیگا.....اووووہ....
کچھ دوسری دفعہ کیلیے بھی چھوڑدو...
اور ساتھ ہی میرا سانس ہانپنے لگا. اور میں بلکل ہی بے سدھ ہوگئی.
اور وسیم جو کسی طور نہیں مان رہا تھا. میری اس بات پر خوشی سے پاگل ہوگیا کہ کچھ دوسری دفعہ کیلیے بھی چھوڑ دو.
Tumblr media
اس نے اپنا لؤڑا میری چوت سے نکالا. اورمجھے سیدھا کرکے لٹایا. اور اپنا لوڑا میرے چہرے کے عین سامنے لاکر اس کی مٹھ مارنے لگا.
اور بمشکل....ڈیڑھ دو منٹ ہی اسے رگڑا تھا کہ اس کے لؤڑے نے زور کی گرم گرم دھار منی اگل دی. جو بلکل سیدھی میرے چہرے پر آئی. میں اس کو کچھ بھی نہ کہہ پائی. کیونکہ اس کو اس محبت بھرے کھیل کا انجام یادگار بھی تو کرنا تھا.
اس کے لؤڑے نے اپنی ساری آگ میرے چہرے پر اگل دی تھی. اور وہ بھی خالی ہوکر میرے ہونٹوں سے چوم رہا تھا. اور میں آنکھیں بند کرکے سکون سے لیٹی ہوئی تھی.مجھ کو اس بات کی بھی پرواہ نہیں تھی. کہ میرا چہرہ اس کی منی سے چپک رہا ہے.
وسیم مجھ پر جھکا اس نے میرے لبوں پر ایک گہرا بوسہ لیا. اور مجھ سے بولا.
آپ میری ساس ہیں. میں نے آپکو چؤدا ہے. مجھے اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہے. میں آپ کو چود کر بے انتہا خوش ہوں. اور اتنا کہہ کر وہ اٹھا اور باتھ روم کی طرف نہانے چلدیا. جبکہ میں نے بستر پر ہی لیٹے رہنے کو ترجیح دی. شام 6 بجے تک وسیم مجھے میرے گھر وآپس لا چکا تھا. آج تیسرا دن تھا. میں گھر کے کام نمٹا کر تیار ہورہی تھی.
میں نے وسیم کو فون لگایا. جی.....اس کی شوخ چنچل آواز آئی. آجاؤ وسیم تمہاری دعوت ہے....میں خوشی سے بے حال ہورہی تھی . جی میں آرہا ہوں....وہ بھی خوشی سے بولا.
میری قربانی کے نتیجے میں بیٹی خوش ہے ......! داماد بھی بہت خوش ہیں. لیکن میں سب سے زیادہ خوش ہوں. کیونکہ میری ویران زندگی میں بھی بہار آگئی ہے ۔
ختم شد
Tumblr media
10 notes · View notes
muneersecstasy · 1 month
Text
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
عید کہ اِس پُر مسرّت موقع پر اللّٰہ تعالیٰ آپ پر اور آپکے اہلِ خانَہ پر خصوصی رحم فرمائے۔
ہماری عبادات اور ٹوٹی پھوٹی محنتوں کو اپنی رحمت بےانتہا کہ طفیل اپنی بارگاہِ بےنیاز میں شَرْفِ قَبُولِیَّت عطا فرمائے۔ آپسی محبّت اور اتفاق عطا فرمائے۔ شیطان کہ شر و فتن سے حفظ و امان عطا فرمائے۔ اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنےقُرب سے سرفراز فرمائے۔جملہ عالمِ اسلام کی جان، مال ،دین آبرو کی حفاظت فرمائے۔ بالخصوص فلسطین پر رحم وکرم کے ساتھ راحت و آسانی کا معاملہ فرمائے ۔
پُر خلوص حقير کی جانب سے دِل کی گہرائیوں سے عید الفطر مبارک ہو!
فی امان اللہ۔
6 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 3 months
Text
نسیم صبح گلشن میں گلوں سے کھیلتی ہوگی
کسی کی آخری ہچکی کسی کی دل لگی ہوگی
تجھے دانستہ محفل میں جو دیکھا ہو تو مجرم ہوں
نظر آخر نظر ہے بے ارادہ اٹھ گئی ہوگی
مزہ آ جائے گا محشر میں کچھ سننے سنانے کا
زباں ہوگی ہماری اور کہانی آپ کی ہوگی
یہی عالم رہا پردہ نشینی کا تو ظاہر ہے
خدائی آپ سے ہوگی نہ ہم سے بندگی ہوگی
تعجب کیا لگی جو آگ اے سیمابؔ سینے میں
ہزاروں دل میں انگارے بھرے تھے لگ گئی ہوگی
4 notes · View notes
apnibaattv · 1 year
Text
سیٹلائٹ تصاویر ترکی اور شام کے زلزلوں میں تباہی کے پیمانے کو ظاہر کرتی ہیں۔ انٹرایکٹو نیوز
پریشان کن سیٹلائٹ تصاویر آنا شروع ہو رہی ہیں، جو ترکی میں تباہی کی سطح کو ظاہر کرتی ہیں زلزلے جس نے شام کے ساتھ اپنی سرحد کے قریب علاقے کو تباہ کر دیا۔ پہلا زلزلہ، جس کی شدت 7.8 تھی، پیر کی صبح 4:17am (01:17 GMT) پر آیا اور اس کا مرکز صوبہ کہرامنماراس کے ضلع پزارک میں تھا۔ اس کے بعد درجنوں آفٹر شاکس آئے۔ 12 گھنٹے سے بھی کم وقت بعد، اسی علاقے میں ایک سیکنڈ، 7.6 شدت کا زلزلہ آیا۔ (الجزیرہ) زلزلے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdu-e24bollywood · 1 year
Text
شاہ رخ خان نے 'پٹھان' سے جان ابراہم کا روپ ظاہر کر دیا
شاہ رخ خان نے ‘پٹھان’ سے جان ابراہم کا روپ ظاہر کر دیا
ایس آر کے کو جان ابراہم کی ضرورت ہے: جان ابراہم 17 دسمبر 2022 کو اپنی پچاسویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ اس خاص دن پر شاہ رخ خان نے انہیں اپنی آنے والی فلم ‘پٹھان’ سے مخصوص انداز میں سالگرہ کی مبارکباد دی ہے۔ SRK نے ایک خاص کیپشن کے ساتھ جان کے روپ کو ظاہر کر کے سب کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ SRK نے جان ابراہم کا روپ لانچ کیا۔ شاہ رخ خان نے اپنے آفیشل انسٹاگرام اکاؤنٹ پر فلم ‘پٹھان’ سے جان ابراہم کا لک لانچ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
ariesvibe · 9 months
Text
کبھی کبھی میں رات کے اندھیرے میں اپنے کمرے کے اک خاموش کونے میں آنکھیں بند کیے بیٹھا یہ سوچتا ہوں کی میں زندگی سے ایسے کیسے ہار گیا؟ میں تو وہ تھا جو کبھی بحث میں کسی سے نہیں ہارا کرتا تھا، میں تو وہ تھا کہ جو بات اک دفعہ کہہ دیتا اسے ہر صورت پورا کر کے دم لیتا تھا۔ مگر اب، میں ہر چیز سے ہارا بیٹھا ہوں۔ زندگی سے، اپنے خوابوں سے، اپنی خواہشات سے، اپنی زندگی میں موجود ہر چیز سے، یہاں تک کہ اپنی زات سے بھی ہار چکا ہوں۔ پتہ نہیں زندگی کب ایسی ہوگئی اور کب میں اس مقام تک پہنچ گیا۔ میرے ارد گرد رہنے والے لوگوں کو مجھ سے ہمیشہ یہی شکایت رہتی ہے کہ میں بے حس ہوں، مجھے کسی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کوئی رہے نہ رہے، کوئی آئے یا جائے، شاید کسی حد تک ایسا ہی ہے۔ مگر یہ کوئی نہیں جانتا کہ میں کن حالات سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہوں، نا جانے کون کون سی مشکلات اٹھائی میں نے۔ پر میں اپنا آپ ظاہر نہیں کرتا کسی کے سامنے بھی، سوائے اس پاک ذات کے جو دلوں کے راز جانتی ہے، اس کے سوا مجھے کوئی نہیں جانتا۔
احسان زندگی پر کیے جا رہے ہیں ہم
من تو نہیں پھر بھی جیے جا رہے ہیں ہم
9 notes · View notes
risingpakistan · 6 months
Text
اسرائیل دنیا کو اپنے خلاف کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے
Tumblr media
ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ آگے کیا ہو گا۔ اسرائیل کو لگتا ہے کہ اس کے پاس مغرب کی طرف سے چار ہزار سے زائد بچوں سمیت ہزاروں فلسطینی شہریوں کو مارنے کے لیے مطلوبہ مینڈیٹ ہے۔ گنجان پناہ گزین کیمپوں پر گرائے گئے ایک ٹن وزنی مہیب بم اور ایمبولینسوں، سکولوں اور ہسپتالوں پر فضائی حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسے حماس کی طرح عام شہریوں کی اموات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اسرائیل مہذب دنیا کی نظروں میں خود کو بدنام کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ غزہ کے قتلِ عام سے پہلے بن یامین نتن یاہو کے فاشسٹوں اور بنیاد پرستوں کے ٹولے کے ذریعے اسرائیل کے عدالتی اداروں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس نے امریکی لابی گروپ اے آئی پی اے سی کے پے رول پر موجود سیاست دانوں کی جانب سے اسرائیل کے جمہوری ملک ہونے اور اخلاقی طور پر برتر اور ترقی یافتہ ملک ہونے کے برسوں سے کیے جانے والے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ پچھلی دہائیوں میں، واحد بین الاقوامی آواز جو اہمیت رکھتی تھی وہ واشنگٹن کی تھی، جس میں یورپی اتحادی ہمنوا کی حیثیت سے ساتھ ساتھ تھے۔ لیکن 2020 کی کثیرالجہتی دہائی میں ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ میں ابھرتی ہوئی طاقتیں اسرائیل کی مذمت کرنے اور سفارتی تعلقات کو گھٹانے کے لیے قطار میں کھڑی ہیں۔
انصاف کے حامی بڑے حلقے غصے سے بھڑک اٹھے ہیں، یہاں تک کہ مغربی دنیا میں بھی۔ مسلمانوں، عربوں اور ترقی پسند رحجان رکھنے والے یہودیوں کے انتخابی لحاظ سے اہم طبقوں کے ساتھ ساتھ، یونیورسٹیاں ​​نوجوانوں کی سیاست زدہ نسل سے فلسطین کی حامی سرگرمیوں کے لیے اہم مراکز بن گئی ہیں۔ جب دنیا بھر میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں، برطانیہ کی وزیر داخلہ بریورمین جیسے دائیں بازو کے کارکن فلسطینیوں کے حامی مظاہروں کو مجرمانہ بنانے کے لیے شہری آزادیوں پر غصے سے کریک ڈاؤن کر رہے ہیں، جسے وہ ’نفرت مارچ‘ کے طور پر بیان کرتی ہیں۔  وہ دور لد چکا جب اسرائیل کی حامی لابیوں نے بیانیے کو قابو میں کر رکھا تھا۔ سوشل میڈیا کی خوفناک تصاویر مظالم کو ریئل ٹائم میں سب کو دکھا رہی ہیں، جبکہ دونوں فریق بیک وقت ہمیں غلط معلومات اور پروپیگنڈے کے ذریعے بہکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ماحول میں مذہب پر مبنی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلاموفوبیا پر مبنی حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے عمر رسیدہ امریکی سیاست دان ایک مٹتے ہوئے اسرائیل نواز اتفاقِ رائے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خاص طور پر مشی گن جیسی اہم ’سوئنگ‘ ریاستوں میں بڑی مسلم، عرب اور افریقی نژاد امریکی کمیونٹیز بائیڈن کی اسرائیل کی پالیسی کے خلاف ہو رہی ہیں۔
Tumblr media
اوباما نے اپنے جانشینوں کو خبردار کیا ہے، ’اگر آپ مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو پوری سچائی کو اپنانا ہو گا۔ اور پھر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی کے ہاتھ صاف نہیں ہیں، بلکہ ہم سب اس میں شریک ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا، ’اسرائیلی فوجی حکمت عملی جو انسانی جانوں کی اہیمت کو نظر انداز کرتی ہے بالآخر الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس موجودہ تباہی کے بعد بائیڈن کے پاس مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی کو فوری طور پر بحال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی اپنے فلسطین کے حامی ترقی پسند ونگ کی طرف خاصا رجحان رکھتی ہے، جسے ایسے لوگوں کی وسیع بنیاد پر حمایت حاصل ہے جو آج غزہ کے قتل عام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان ترقی پسندوں کو ایک دن قانون سازی کی مطلوبہ طاقت حاصل کرنے کے بعد اسرائیل کی فوجی امداد کے لیے کانگریس کے بلوں کو ویٹو کرنے میں کچھ پریشانی ہو گی۔ اسی قسم کا تناؤ یورپ بھر میں بھی چل رہا ہے۔ آئرلینڈ اور سپین واضح طور پر فلسطینیوں کے حامی ہیں، جب کہ ارسلا فان ڈیر لیین اور رشی سونک جیسی شخصیات اسرائیل کی حمایت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے بےچین ہیں۔
فرانس اور جرمنی جیسی بڑی عرب اور مسلم آبادی والے ملک اپنی سیاسی بیان بازی کو اعتدال پر لانے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل نے بین الاقوامی بائیکاٹ کی تحریکوں کے خلاف بھرپور طریقے سے جنگ لڑی ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ دشمنوں سے گھرے ہوئے اسرائیل کے لیے عالمی اقتصادی تنہائی کتنی تباہ کن ثابت ہو گی۔ غزہ کے باسیوں کی تسلی کے لیے اس طرح کے رجحانات بہت دور کی بات ہیں، لیکن ان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آنے والے برسوں میں فلسطین تنازع اسرائیل کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی کے تناظر میں سامنے آئے گا۔ بین الاقوامی بار ایسوسی ایشن سمیت عالمی اداروں کے تمام حصوں نے بھرپور طریقے سے جنگ بندی کی وکالت کی ہے، اور اسرائیل کو انسانی حقوق کی عالمی ذمہ داریوں سے استثنیٰ نہ دینے پر زور دیا ہے۔ سات اکتوبر کو حماس کا حملہ اسرائیل کے لیے ایک بہت بڑا نفسیاتی دھچکہ تھا، جس نے بالآخر اسے یہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جب تک وہ امن کی کوششوں کو مسترد کرتا رہے گا، اس کے وجود کو خطرات کا سامنا رہے گا۔  اس جیسے چھوٹے سے ملک میں بڑی تعداد میں لوگوں کو جنوبی اور شمالی اسرائیل کے بڑے علاقوں اور دیگر غیر محفوظ علاقوں سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے، کچھ کو شاید مستقل طور پر، لیکن آبادی کے بڑے مراکز اب بھی حزب اللہ اور اسلامی جہاد کے راکٹوں کی آسانی سے پہنچ میں ہیں۔
نتن یاہو جیسے امن کو مسترد کرنے والوں کی ایک دوسرے سے ملتی جلتی کارروائیاں ہیں جنہوں نے امن کی میز پر فریقین کی واپسی کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں معاشروں میں اوسلو معاہدے کے برسوں سے سرگرم امن کیمپوں کو دوبارہ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جو انصاف، امن اور مفاہمت کے لیے مہم چلا سکیں۔ اسرائیل کی انتقامی پیاس نے انتہا پسند کیمپ کو طاقت بخشی ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ غزہ کی فوجی مہم فلسطین کو عربوں سے پاک کرنے کے لیے بہترین دھواں دھار موقع پیش کرتی ہے۔ اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ گیورا آئلینڈ نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ’ایسے حالات پیدا کرے جہاں غزہ میں زندگی غیر پائیدار ہو جائے۔ ایسی جگہ جہاں کوئی انسان موجود نہ ہو‘ تاکہ غزہ کی پوری آبادی یا تو مصر چلی جائے، یا پھر مصر منتقل ہو جائے۔ ‘نتن یاہو مصر پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ غزہ کے لوگوں کے صحرائے سینا کی طرف ’عارضی‘ انخلا کو قبول کرے، جبکہ دوسری طرف وہ محصور آبادی کو بھوک سے مرنے اور کچلنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ فلسطینی صرف اتنا چاہتے ہیں کہ دنیا ان کی حالتِ زار کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھے۔ 
فلسطین کی حمایت اور حماس کی حمایت ایک برابر نہیں ہیں۔ بلاروک ٹوک مغربی پشت پناہی نے اسرائیل کو یہ باور کروایا ہے کہ اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، جو نہ صرف مقبوضہ علاقوں میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی ان گنت قراردادوں اور عالمی نظام کے بنیادی اصولوں کو بھی زک پہنچا رہا ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں ایک مختصر دورانیے میں غزہ میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے 72 عملے کی اموات ایک ریکارڈ ہے، جب کہ الٹا اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل پر ’خون کی توہین‘ اور ’دہشت گردی کی کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے‘ کا الزام لگایا ہے۔ اسرائیلی سمجھتے تھے کہ وقت ان کے ساتھ ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ عرب ریاستیں دلچسپی کھو رہی ہیں، فلسطینی اپنے علاقوں کے ہر سال بڑھتے ہوئے نقصان پر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور تھے، اور یہ سوچ تھی کہ جب 1947 اور 1967 کی نسلیں ختم ہو جائیں تو کیا ان کے ساتھ ہی قوم پرستانہ جذبات بھی فنا نہیں ہو جائیں گے؟ اس کے بجائے، نئی فلسطینی نسل اور ان کے عالمی حامی پہلے سے زیادہ پرجوش، پرعزم اور سیاسی طور پر مصروف ہیں۔ اور معقول طور پر، کیونکہ تمام تر مشکلات اور خونریزی کے باوجود ناقابل تسخیر عالمی رجحانات اس بات کی علامت ہیں کہ وقت، انصاف اور آخرِ کار تاریخ ان کے ساتھ ہے۔
اس طرح سوال یہ بنتا ہے کہ کتنی جلد کوتاہ اندیش اسرائیلی امن کے لیے ضروری سمجھوتوں کی وکالت شروع کر دیتے ہیں، کیوں کہ اسرائیل کو لاحق دفاعی خطرات بڑھ رہے ہیں اور ان کی ریاست کی جغرافیائی سیاسی طاقت ختم ہو رہی ہے۔ 
بارعہ علم الدین  
نوٹ: کالم نگار بارعہ عالم الدین مشرق وسطیٰ اور برطانیہ میں ایوارڈ یافتہ صحافی اور براڈکاسٹر ہیں۔ وہ میڈیا سروسز سنڈیکیٹ کی مدیر ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes · View notes
ahsenhaider · 2 years
Text
Farewell to my loveliest love ...
‏چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں مرے ہم راہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
- Khubsurat Mod, Sahir Ludhianvi ... Dedicated this to someone i let go
25 notes · View notes
wannabewritersposts · 2 years
Text
احباب کا شکوہ کیا کیجئے خود ظاہر و باطن ایک نہیں
لب اوپر اوپر ہنستے ہیں دل اندر اندر روتا ہے
Ehbaab ka kia kijiye khud zahir o batin aik nahi Lab uper uper se hanste hein dil andar andar se rota hai
—Hafiz Jalandhari
What complaints should we do about our friends, even we are not being the same from inside out
The lips laugh on the outside, but the heart inside cries
11 notes · View notes
faheemkhan882 · 1 year
Text
Tumblr media
چاند پر جانے کی وڈیو جعلی تھی
ایک اخباری کے مطابق :جو کہ امریکہ اور یورپ کے 12 دسمبر کے اخبارات میں چھپی ہے۔ خبر کا لنک بھی دے رہا ہوں۔
http://www.express.co.uk/news/science/626119/MOON-LANDINGS-FAKE-Shock-video-Stanley-Kubrick-admit-historic-event-HOAX-NASA
خبر کا خلاصہ کچھ یوں ہے
ہالی ووڈ کے معروف فلم ڈائریکٹر سٹینلے کبرک نے ایک ویڈیو میں تسلیم کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے چاند پر مشن بھیجنے کا دعویٰ جعلی اور جھوٹ پر مبنی تھا اور میں ہی وہ شخص ہوں جس نے اس جھوٹ کو فلم بند کیا تھا ۔اس رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ایک خفیہ ویڈیو ریلیز کی گئی ہے جس میں ہالی ووڈ کے آنجہانی ہدایتکار سٹینلے کبرک نے تسلیم کیا ہے کہ 1969ء میں چاند پر کوئی مشن نہیں گیا تھا بلکہ انہوں نے اس کی فلم بندی کی تھی۔ ہالی ووڈ کے ہدایتکار کی اس خفیہ ویڈیو کو 15 سال قبل فلم بند کیا گیا تھا۔ ان کی ویڈیو بنانے والے رپورٹر نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس ویڈیو کو ان کی وفات کے 15 سال بعد افشاء کرے گا۔ اس کے چند ہی دن بعد سٹینلے کبرک کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس خفیہ ویڈیو میں انہوں نے تسلیم کیا کہ چاند کی تسخیر پر اٹھائے جانے والے تمام سوالات درست ہیں یہ سب کچھ امریکی خلائی ادارے ناسا اور امریکی حکومت کی ایماء پر کیا گیا تھا۔اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو اس تمام معاملے کا علم تھا۔سٹینلے کبرک کا کہنا تھا کہ وہ امریکی عوام سے معذرت خواہ ہیں کیونکہ انہوں نے ان سے دھوکہ دہی کی ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے امریکی حکومت اور ناسا کے کہنے پر مصنوعی چاند پر فلم بندی کی تھی میں اس فراڈ پر امریکی عوام کے سامنے شرمسار ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو یہ تھا اس وڈیو بنانے والا اصل کریکٹر جو اعتراف کرگیا کہ یہ سب کچھ جعلی تھا۔ اس سے پہلے میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو اس کے بارے میں بتا چکا ہوں کہ اس وڈیو بنانے کی وجوہات اصل میں کیا تھیں۔ اور کچھ اس پر اٹھائے جانے والے اعتراضات بھی بتا چکا ہوں۔ یہ پوسٹ میں دوبارہ آپ کی دلچسپی اور علم میں اضافے کے لئے پیش کررہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند پر انسانی قدم کے ڈرامے کی وجوہات اور اعتراضات
چند دن پہلے میں نے "چاند پر قدم کا ڈرامہ" نامی آرٹیکل اس دلچسپ معلومات پیج پر پوسٹ کیا تھا ۔ جس پر کچھ دوستوں نے اعتراضات کئے تھے کہ "یہ سب بکواس ہے چاند پر قدم ایک حقیقت ہے"۔یا۔"خود تو کچھ کر نہیں سکتے اور دوسروں پر اعتراضات کرتے ہیں"۔ وغیرہ وغیرہ ۔اور بہت سارے دوست تو میری بات سے متفق بھی تھے۔ تو ان معترضین سے عرض یہ ہے کہ چاند پر قدم کا ڈرامہ کہنے والے پاکستان نہیں بلکہ خود امریکی اور یورپ کے ماہرین ہیں۔کیونکہ ہمارے پاس تو اتنی ٹیکنالوجی اور وسائل نہیں کہ ہم حقیقتِ حال جان سکیں۔ جن کے پاس تمام وسائل ہیں ان لوگوں نے ہی اس نظریے پر اعتراضات اٹھائے ہیں کہ یہ ایک باقاعدہ ڈرامہ تھا جو امریکہ اور روس کی سرد جنگ کے درمیان امریکہ نے روس پر برتری حاصل کرنے کے لئے گڑھا تھا۔ آئیے ان اعتراضات پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ذہن میں رہے یہ اعتراضات کوئی پاکستانی نہیں کررہا بلکہ امریکی کررہے ہیں۔جن کو میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کو دوستوں سے شئیر کررہا ہوں۔
1969 میں امریکی خلانورد نیل آرمسٹرانگ نے گرد سے اٹی ہوئی جس سرزمین پر قدم رکھا تھا، کیا وہ چاند کی سطح تھی یا یہ ہالی وڈ کے کسی سٹوڈیو میں تخلیق کیا گیا ایک تصور تھا؟ بہت سے لوگوں کی نظر میں یہ حقیقت آج بھی افسانہ ہے۔کیونکہ کچھ ہی سالوں میں خود امریکہ میں اس بات پر شک و شبہ ظاہر کیا جانے لگا کہ کیا واقعی انسان چاند پر اترا تھا؟
15 فروری 2001 کو Fox TV Network سے نشر ہونے والے ایک ایسے ہی پروگرام کا نام تھا
Conspiracy Theory: Did We Land on the Moon?
اس پروگرام میں بھی ماہرین نے بہت سے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ اسی طرح یوٹیوب پر بھی یہ دو ڈاکیومینٹری دیکھنے والوں کے ذہن میں اس بارے ابہام پیدا کرنے کے لئے کافی موثر ہیں۔
Did man really go to the moon
Did We Ever Land On The Moon
پہلے اس ڈرامے کی وجوہات پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔کہ آخر کیا وجہ تھی کہ امریکہ نے اتنا بڑا(تقریباکامیاب) ڈرامہ بنایا۔
سرد جنگ کے دوران امریکہ کو شدید خطرہ تھا کہ نہ صرف اس کے علاقے روسی ایٹمی ہتھیاروں کی زد میں ہیں بلکہ سرد جنگ کی وجہ سے شروع ہونے والی خلائی دوڑ میں بھی انہیں مات ہونے والی ہے۔ کیونکہ روس کی سپیس ٹیکنالوجی امریکہ سے بہت بہتر تھی۔ جنگ ویتنام میں ناکامی کی وجہ سے امریکیوں کا مورال بہت نچلی سطح تک آ چکا تھا۔
پہلا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجنے کے معاملے میں روس کو سبقت حاصل ہو چکی تھی جب اس نے 4 اکتوبر 1957 کو Sputnik 1 کو کامیابی کے ساتھ زمین کے مدار میں بھیجا۔ روس 1959 میں بغیر انسان والے خلائی جہاز چاند تک پہنچا چکا تھا۔ 12 اپریل 1961 کو روسی خلا نورد یوری گگارین نے 108 منٹ خلا میں زمیں کے گرد چکر کاٹ کر خلا میں جانے والے پہلے انسان کا اعزاز حاصل کیا۔ 23 دن بعد امریکی خلا نورد Alan Shepard خلا میں گیا مگر وہ مدار تک نہیں پہنچ سکا۔ ان حالات میں قوم کا مورال بڑھانے کے لیئے صدر کینڈی نے 25 مئی 1961 میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم اس دہائی میں چاند پر اتر کہ بخیریت واپس آئیں گے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دہائی کے اختتام پر بھی اسے پورا کرنا امریکہ کے لئے ممکن نہ تھا اس لیئے عزت بچانے اور برتری جتانے کے لیئے جھوٹ کا سہارا لینا پڑا۔ امریکہ کے ایک راکٹ ساز ادارے میں کام کرنے والے شخصBill Kaysing کے مطابق اس وقت انسان بردار خلائی جہاز کے چاند سے بہ سلامت واپسی کے امکانات صرف 0.017% تھے۔ اس نے اپولو مشن کے اختتام کے صرف دو سال بعد یعنی 1974 میں ایک کتاب شائع کی جسکا نام تھا
We Never Went to the Moon:
America's Thirty Billion Dollar Swindle
3 اپریل 1966 کو روسی خلائ جہاز Luna 10 نے چاند کے مدار میں مصنوعی سیارہ چھوڑ کر امریکیوں پر مزید برتری ثابت کر دی۔ اب امریکہ کے لئے ناگزیر ہوگیا تھا کہ کچھ بڑا کیا جائے تاکہ ہمارا مورال بلند ہو۔
21 دسمبر 1968 میں NASA نے Apollo 8 کے ذریعے تین خلا نورد چاند کے مدار میں بھیجے جو چاند کی سطح پر نہیں اترے۔ غالباً یہNASA کا پہلا جھوٹ تھا اور جب کسی نے اس پر شک نہیں کیا تو امریکہ نے پوری دنیا کو بے وقوف بناتے ہوئے انسان کے چاند پر اترنے کا یہ ڈرامہ رچایا اورہالی وڈ کے ایک اسٹوڈیو میں جعلی فلمیں بنا کر دنیا کو دکھا دیں۔ اپولو 11 جو 16جولائی 1969 کو روانہ ہوا تھا درحقیقت آٹھ دن زمین کے مدار میں گردش کر کے واپس آ گیا۔
1994 میں Andrew Chaikin کی چھپنے والی ایک کتاب A Man on the Moon میں بتایا گیا ہے کہ ایسا ایک ڈرامہ رچانے کی بازگشت دسمبر 1968 میں بھی سنی گئی تھی۔
اب ان اعتراضات کی جانب آتے ہیں جو سائنسدانوں نے اٹھائے ہیں۔
1- ناقدین ناسا کے سائنسدانوں کے عظیم شاہکار اپالو گیارہ کو ہالی وڈ کے ڈائریکٹروں کی شاندار تخلیق سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس سفر اور چاند پر انسانی قدم کو متنازعہ ماننے والوں کی نظر میں ناسا کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں کئی نقائص ہیں، جن سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے چالیس سال قبل انسان سچ مچ چاند پر نہیں پہنچا تھا۔
2۔اس سفر کی حقیقت سے انکار کرنے والوں کا خیال ہے کہ تصاویر میں خلانوردوں کے سائے مختلف سائز کے ہیں اور چاند کی سطح پر اندھیرا دکھایا گیا ہے۔
3۔ ان افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ چاند کی سطح پر لی گئی ان تصاویر میں آسمان تو نمایاں ہے مگر وہاں کوئی ایک بھی ستارہ دکھائی نہیں دے رہا حالانکہ ہوا کی غیر موجودگی اور آلودگی سے پاک اس فضا میں آسمان پر ستاروں کی تعداد زیادہ بھی دکھائی دینی چاہئے تھی اور انہیں چمکنا بھی زیادہ چاہئے تھا۔
4۔ ان لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ناسا کی ویڈیو میں خلانورد جب امریکی پرچم چاند کی سطح پر گاڑ دیتے ہیں تو وہ لہراتا ہے جب کہ چاند پر ہوا کی غیر موجودگی میں ایسا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
5۔چاند کی تسخیر کو نہ ماننے والے ایک نکتہ یہ بھی اٹھاتے ہیں کہ اس ویڈیو میں ایک خلانورد جب زمین پر گرتا ہے تو اسے دوتین مرتبہ اٹھنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔ چاند پر کم کشش ثقل کی وجہ سے ایسا ہونا خود ایک تعجب کی بات ہے۔
6۔زمین کے بہت نزدیک خلائی مداروں میں جانے کے لیئے انسان سے پہلے جانوروں کو بھیجا گیا تھا اور پوری تسلی ہونے کے بعد انسان مدار میں گئے لیکن حیرت کی بات ہے کہ چاند جیسی دور دراز جگہ تک پہنچنے کے لئے پہلے جانوروں کو نہیں بھیجا گیا اور انسانوں نے براہ راست یہ خطرہ مول لیا۔
7۔ کچھ لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اگر انسان چاند پر پہنچ چکا تھا تو اب تک تو وہاں مستقل قیام گاہ بن چکی ہوتی مگر معاملہ برعکس ہے اور چاند پر جانے کا سلسلہ عرصہ دراز سے کسی معقول وجہ کے بغیر بند پڑا ہے۔ اگر 1969 میں انسان چاند پر اتر سکتا ہے تو اب ٹیکنالوجی کی اتنی ترقی کے بعد اسے مریخ پر ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہے۔ ناسا کے مطابق دسمبر 1972 میں اپولو 17 چاند پر جانے والا آخری انسان بردار خلائی جہاز تھا۔ یعنی 1972 سے یہ سلسلہ بالکل بند ہے ۔
8۔ چاند پر انسان کی پہلی چہل قدمی کی فلم کا سگنل دنیا تک ترسیل کے بعد
slow scan television -SSTV
فارمیٹ پر اینالوگ Analog ٹیپ پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ان ٹیپ پر ٹیلی میٹری کا ڈاٹا بھی ریکارڈ تھا۔ عام گھریلو TV اس فارمیٹ پر کام نہیں کرتے اسلیئے 1969 میں اس سگنل کو نہایت بھونڈے طریقے سے عام TV پر دیکھے جانے کے قابل بنایا گیا تھا۔ اب ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ایسے سگنل کو صاف ستھری اور عام TV پر دیکھنے کے قابل تصویروں میں بدل دے۔ جب ناسا سےSSTV کے اصلی ٹیپ مانگے گئے تو پتہ چلا کہ وہ ٹیپ دوبارہ استعمال میں لانے کے لئے مٹائے جا چکے ہیں یعنی اس ٹیپ پر ہم نے کوئی اور وڈیو ریکارڈ کردی ہے۔ اورناسا آج تک اصلی ٹیپ پیش نہیں کر سکا ہے۔
9۔ اسی طرح چاند پر جانے اور وہاں استعمال ہونے والی مشینوں کے بلیو پرنٹ اور تفصیلی ڈرائنگز بھی غائب ہیں۔
ان لوگوں کا اصرار رہا ہے کہ ان تمام نکات کی موجودگی میں چاند کو مسخر ماننا ناممکن ہے اور یہ تمام تصاویر اور ویڈیوز ہالی وڈ کے کسی بڑے اسٹوڈیو کا شاخسانہ ہیں۔تو یہ کچھ اعتراضات تھے جن کے تسلی بخش جوابات دیتے ہوئے ناسا ہمیشہ سے کتراتا رہا ہے۔ جو اس نے جوابات دیئے بھی ہیں وہ بھی نامکمل اور غیرشعوری ہیں۔
#fakemoonlanding
#معلومات #عالمی_معلومات #دنیا_بھر_کی_معلومات #جہان_کی_تازہ_معلومات #دنیا_کی_تحریریں #عالمی_خبریں #دنیا_کی_تاریخ #جغرافیائی_معلومات #دنیا_بھر_کے_سفر_کی_کہانیاں #عالمی_تجارت #عالمی_سیاست #تاریخ #اردو #اردو_معلومات #اردوادب
#Infotainment #information #History #WorldHistory #GlobalIssues #SocialTopics #WorldPolitics #Geopolitics #InternationalRelations #CulturalHeritage #WorldCulture #GlobalLeadership #CurrentAffairs #WorldEconomy #Urdu
بہرحال ہر انسان کے سوچنے کا انداز مختلف ہوتا ہےمیرے موقف سے ہر ایک کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
2 notes · View notes