عمر کتنی منزلیں طے کر چکی
دل جہاں تھا وہیں ٹھہرا رہ گیا
Umer kitni manzile'n te'h kar chuki
Dil jaha'n tha wahin thehra reh gaya
87 notes
·
View notes
himmat-e-iltija nahin baqi
zabt ka hausla nahin baqi
ek teri did chhin gai mujh se
warna duniya mein kya nahin baqi
- Faiz Ahmad Faiz
📓 - Nuskha Hai Wafa (Kulliyat-e-Faiz)
79 notes
·
View notes
جو لوٹ آئے تو کچھ کہنا نہیں، بس دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستوں میں خبر ہوئی، کہ یہ راستہ کوئی اور تھا!
Jo laut ayen to kuch khna nh,bus dekhna unheyn ghour se
jinheyn raaston mn khabar hui,kay ye raasta koi or tha
39 notes
·
View notes
کوئی نغمہ ، کوئی خُوشبو ، کوئی کافر صُورت
کوئی امّید ، کوئی آس ، مُسافر صُورت
کوئی غم ، کوئی کسک ، کوئی شک ، کوئی یقیں
کوئی نہیں ہے
آج شَب دِل کے قریں ، کوئی نہیں ہے۔
فیض احمّد فیض
12 notes
·
View notes
اِک طرزِ تغافل ہے سو وہ اُن کو مبارک
اِک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
(فیض احمد فیضؔ)
ik tarz-e-taghaful hai so wo un ko mubarak
ik arz-e-tamanna hai so ham karte rahenge
(Faiz Ahmad Faiz)
20 notes
·
View notes
نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی فیض احمد فیض
نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی فیض احمد فیض
نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی
تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا
جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی
بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا
پہنچ کے در پہ ترے کتنے معتبر ٹھہرے
اگرچہ رہ میں ہوئیں جگ ہنسائیاں کیا کیا
ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا
ستم پہ خوش کبھی لطف و کرم سے رنجیدہ
سکھائیں تم نے ہمیں کج ادائیاں کیا کیا
(فیض احمد فیض)
View On WordPress
1 note
·
View note
When will the pain cease, oh heart? When will the night end?
They used to say they would come; they used to say dawn would break.
Faiz Ahmad Faiz // فیض احمد فیض
Nuskha-e- Wafa (Pg. 347)
163 notes
·
View notes
فیض احمد فیض کی روح سے معذرت کے ساتھ
میں نے سمجھا تھا پکوڑوں سے درخشاں ہے حیات،
پھل میسر ہیں تو مہنگائی کا جھگڑا کیا ہے
لال شربت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات،
ان سموسوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
اور بھی دکھ ہیں تربوز کچا نکلنے کے سوا،
راحتیں اور بھی ہیں لذت کام و دہن کے سوا
ان گنت نسخوں سے پکوائے ہوئے جانوروں کے جسم،
سیخوں پر چڑھے ہوئے، کوئلوں پر جلائے ہوئے
جابجا بکتے ہوئے کوچہ بازار میں مرغ،
مصالحہ میں لتھڑے ہوئے، تیل میں نہلائے ہوئے
نان نکلے ہوئے، دہکے ہوئے تندوروں سے،
خوشبو آتی ہوئی مہکے
ہوئے خربوزوں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے،
تو نے رکھے ہیں پورے روزے، مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں کھانے کے سوا،
راحتیں اور بھی ہیں
خوان سجانے کے سوا
مجھ سے پہلی سی افطاری میرے محبوب نہ مانگ...🤭
22 notes
·
View notes
In English we say :
It is evening 🌆
But فیض احمد فیض said :
بجھا جو روزن زنداں تو دل یہ سمجھا ہے💞
کے تری مانگ ستاروں سے بھر گئ ہوگی🌆
چمک اٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر تیرے رخ پر بکھر گئ ہوگی🍂🖋️
8 notes
·
View notes
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضِ وطن
جو تیرے عارضِ بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہو گا
کتنے آنسو تیرے صحراؤں کو گلزار کریں
فیض احمد فیض
9 notes
·
View notes
تُو نے دیکھی ھے وہ پیشانی، وہ رُخسار، وہ ھونٹ
زندگی جن کے تصّور میں لُٹا دی ھم نے
تُجھ پہ اُٹھی ھیں ، وہ کھوئی ھُوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ھے ، کیوں عُمر گنوا دی ھم نے؟؟
-فیض احمّد فیض
Tu ne dekhi hai wo peshaani, woh rukhsaar, woh hon't
Zindagi jin k tasawsur mai lutaa di hum ne,
Tujh pe uthi hain, wo khoi hui saahar ankhain,
Tujh ko maloom hai, kiyun umer ganwaa di hum ne??
-Faiz Ahmed Faiz
85 notes
·
View notes
In English We Says;
“You got beautiful eyes”
But in Urdu We Says;
“teri surat se hai aalam mein bahaaron ko sabaat teri aankhon ke siwa duniya mein rakkha kya hai”
256 notes
·
View notes
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
فیض احمد فیض
5 notes
·
View notes
”بنیاد کچھ تو ہو“
کوئے ستم کی خامشی آباد کچھ تو ہو
کچھ تو کہو ستم کشو ، فریاد کچھ تو ہو
بیداد گر سے شکوۂ بیداد کچھ تو ہو
بولو ، کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
مرنے چلے، تو سطوتِ قاتل کا خوف کیا
اتنا تو ہو کہ باندھنے پائے نہ دست و پا
مقتل میں کچھ تو رنگ جمے جشنِ رقص کا
رنگیں لہو سے پنجۂ صیّاد کچھ تو ہو
خوں پر گواہ دامنِ جلاّد کچھ تو ہو
جب خوں بہا طلب کریں بنیاد کچھ تو ہو
گر تن نہیں ، زباں سہی ، آزاد کچھ تو ہو
دشنام ، نالہ ، ہاؤ ہو ، فریاد ، کچھ تو ہو
چیخے ہے درد ، اے دلِ برباد کچھ تو ہو
بولو ، کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
بولو ، کہ روزِ عدل کی بنیاد کچھ تو ہو
شاعر : فیض احمد فیضؔ
21 notes
·
View notes
کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
~فیض احمد فیض
HOW CAN SOMEONE EVEN COME UP WITH SOMETHING THIS GENIUS. A STRAIGHT PUNCH TO THE GUT.
4 notes
·
View notes
یہ غم جو اس رات نے دیا ہے فیض احمد فیض
یہ غم جو اس رات نے دیا ہے فیض احمد فیض
یہ رات اس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
عظیم تر ہے کہ اس کی شاخوں
میں لاکھ مشعل بکف ستاروں
کے کارواں گھر کے کھو گئے ہیں
ہزار مہتاب اس کے سائے
میں اپنا سب نور رو گئے ہیں
یہ رات اس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
مگر اسی رات کے شجر سے
یہ چند لمحوں کے زرد پتے
گرے ہیں اور تیرے گیسوؤں میں
الجھ کے گلنار ہو گئے ہیں
اسی کی شبنم سے خامشی کے
یہ چند قطرے تری جبیں پر
برس کے ہیرے پرو گئے…
View On WordPress
1 note
·
View note