Tumgik
#عظیم
kafi-farigh-yusra · 8 months
Text
جو ہم پہ گزری ہے شاید سبھی پہ گزری ہے
فسانہ جو بھی سُنا، کچھ سُنا سُنا سا لگا
اقبال عظیم
Tumblr media
Jo hum pe guzri hai shyd sabhi pe guzri hai
Fasana jo bhi suna, kuch suna suna sa laga
-Iqbal Azeem
227 notes · View notes
dadsinsuits · 6 months
Text
Tumblr media
Azeem Rafiq
5 notes · View notes
shayarigateway · 2 days
Text
youtube
0 notes
googlynewstv · 25 days
Text
دوسری جنگِ عظیم کی باقیات سے تلوار دریافت
ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران تباہ سیلر کی باقیات سے تلوار دریافت کرلی۔  تفصیلات کے مطابق تلوار جاپان کے ایڈو دور سے تعلق رکھتی ہے، یہ وہ دور تھا جب ملک نے بیرونی نوآبادیاتی اور مذہبی اثرات کو روکنے کے لئے خود کو الگ تھلگ کرنے کی سخت پالیسی پر عمل کیا اور تقریبا تین صدیوں تک اپنی سرحدوں کو بند رکھا تھا۔ اسٹیٹ آرکیولوجسٹ اور میوزیم کے ڈائریکٹر میتھیاس ویمہوف کا کہنا تھا کہ کون…
0 notes
urduchronicle · 10 months
Text
کہانی میرے اندر بنتی ہے یہی کہانی ’ پری زاد‘ ڈرامہ کی صورت میں نشر ہوگئی، ہاشم ندیم
اداکاری سکھائی نہیں جاتی ،اداکار یاتو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ،فلم معاشرے کی عکاس ہے موجودہ دور میں فلم انڈسٹری کی صورتحال خراب ہے حکومت اس انڈسٹری پر توجہ دے ۔آرٹ اور کلچر بھی پانچواں اہم ستون ہے ۔70 کی دہائی تک فلم ترقی کررہی تھی وہی دور سنہرا تھا ۔آج کے دور کے نوجوان فنکار بہت ذہین ہیں وہ کچھ دیر قبل ہی اسکرپٹ دیکھتے ہیں اور ان میں سے بعض بہت عمدہ پرفارم بھی کردیتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں ایک ڈرامے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
bazmeur · 1 year
Text
ترجمہ تیسیر القرآن ۔۔۔ مولانا عبد الرحمٰن کیلانی، جمع و ترتیب: اعجاز عبید، محمد عظیم الدین
ڈاؤن لوڈ کریں پی ڈی ایف فائلورڈ فائلٹیکسٹ فائلای پب فائلکنڈل فائل کتاب کا نمونہ پڑھیں…… تیسیر القرآن مولانا عبدالرحمٰن کیلانی   جمع و ترتیب: اعجاز عبید، محمد عظیم الدین ۱۸۔ سورۃ الکہف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۱۔   سب تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے ۱۔ الف بندے پر یہ کتاب (قرآن) نازل کی اور اس میں کوئی کجی نہیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
nuktaguidance · 2 years
Text
عظیم قربانی
عظیم قربانی حضرت اسماعیل علیہ السلام معروف ناول نگار اشتیاق احمد مرحوم کا سلسلہ قصص الانبیاء Aezeem Qurbani Ismail AS Read Online Downlolad PDF
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
0rdinarythoughts · 2 years
Text
Tumblr media
اللہ تبارک وتعالیٰ ٹوٹی ہوئی چیزوں کو خوبصورتی سے استعمال کرتا ہے، ٹوٹے ہوئے بادل بارش برساتے ہیں، ٹوٹی ہوئی مٹی کھیت کے طور پر، ٹوٹی ہوئی فصل کے بیج، ٹوٹے ہوئے بیج نئے پودوں کو زندگی بخشتے ہیں۔ لہذا جب آپ محسوس کریں کہ آپ ٹوٹے ہوئے ہیں، تو یقین رکھیں کہ اللہ تعالی آپ کو کسی عظیم کام کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ کر رہا ہے۔
Allāhﷻ uses broken things beautifully, broken clouds pour rain, broken soil sets as field, broken crop yield seeds, broken seeds give life to new plants. So when you feel you are broken, be rest assured that Allāh ﷻ is planning to utilize you for something great.
323 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 3 months
Text
سکون مطلوب نہیں
ایک کہاوت ہے کہ جہاز بندر گاه میں زیاده محفوظ رہتے ہیں- مگر جہاز اس لئے نہیں بنائے گئے کہ وه بندر گاه میں کهڑے رہیں :
Ships are safer in the harbour , but they are not meant for that purpose.
انسان اگر اپنے ٹهکانے پر بیٹها رہے، وه نہ سفر کرے، نہ کوئی کام شروع کرے، نہ کسی سے معاملہ کرے، تو ایسا آدمی بظاہر محفوظ اور پر سکون هو گا- مگر انسان کو پیدا کرنے والے نے اس کو اس لئے پیدا نہیں کیا ہے کہ وه پر سکون طور پر ایک جگہ رہے اور پهر وه قبر میں چلا جائے-
انسان کو اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ وه کام کرے- وه دنیا میں ایک زندگی کی تعمیر کرے- اس مقصد کے لیے اس کو دنیا کے ہنگاموں میں داخل هونا پڑے گا- وه ہارنے اور جیتنے کے تجربات اٹهائے گا- اس کو کبهی نقصان هو گا اور کبهی فائده- اس قسم کے واقعات کا پیش آنا عین فطری ہے- اور ایسے واقعات و حوادث کا اندیشہ هونے کے باوجود انسان کے لئے یہ مطلوب ہے کہ وه زندگی کے سمندر میں داخل هو اور اپنی جدوجہد میں کمی نہ کرے-
مزید یہ کہ پر سکوں زندگی کوئی مطلوب زندگی نہیں- کیونکہ جو آدمی مستقل طور پر سکوں کی حالت میں هو اس کا ارتقاء روک جائے گا- ایسے آدمی کے امکانات بیدار نہیں هوں گے- ایسے آدمی کی فطرت میں چهپے هوئے خزانے باہر آنے کا موقع نہ پا سکیں گے-
اس کے برعکس ایک آدمی جب زندگی کے طوفان میں داخل هوتا ہے تو اس کی چهپی هوئی صلاحیتیں جاگ اٹهتی ہیں- وه معمولی انسان سے اوپر اٹهہ کر غیر معمولی انسان بن جاتا ہے- پہلے اگر وه چهوٹا سا بیج تها تو اب وه ایک عظیم الشان درخت بن جاتا ہے-
زندگی جدوجہد کا نام ہے- زندگی یہ ہے کہ آدمی مقابلہ کر کے آگے بڑهے- زندگی وه ہے جو سیلاب بن جائے نہ کہ وه جو ساحل پر ٹهہری رہے-
الرسالہ، جون 2000
مولانا وحیدالدین خان
7 notes · View notes
kafi-farigh-yusra · 7 months
Text
عمر کتنی منزلیں طے کر چکی
دل جہاں تھا وہیں ٹھہرا رہ گیا
Tumblr media
Umer kitni manzile'n te'h kar chuki
Dil jaha'n tha wahin thehra reh gaya
102 notes · View notes
moizkhan1967 · 4 months
Text
Tumblr media
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
اے درد بتا کچھ تُو ہی بتا! اب تک یہ معمہ حل نہ ہوا
ہم میں ہے دلِ بےتاب نہاں یا آپ دلِ دلِ بےتاب ہیں ہم
میں حیرت و حسرت کا مارا، خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے، آ! کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہلِ زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں، کم یاب ہیں ہم
مرغانِ قفس کو پھولوں نے، اے شاد! یہ کہلا بھیجا ہے
آ جاؤ جو تم کو آنا ہوایسے میں، ابھی شاداب ہیں ہم
شاد عظیم آبادی
7 notes · View notes
shayarigateway · 2 days
Text
youtube
1 note · View note
nabxtangled · 1 year
Text
Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media
باپ تو وہ عظیم ہستی ہے جس کے پیسنے کی ایک بوند کی قیمت بھی اولاد ادا نہیں کر سکتی
31 notes · View notes
faheemkhan882 · 9 months
Text
‏ایک چھوٹا لڑکا بھاگتا ھوا "شیوانا" (قبل از اسلام ایران کا ایک مفکّر) کے پاس آیا اور کہنے لگا..
"میری ماں نے فیصلہ کیا ھے کہ معبد کے کاھن کے کہنے پر عظیم بُت کے قدموں پر میری چھوٹی معصوم سی بہن کو قربان کر دے..
آپ مہربانی کرکے اُس کی جان بچا دیں.."
‏شیوانا لڑکے کے ساتھ فوراً معبد میں پہنچا اور کیا دیکھتا ھے کہ عورت نے بچی کے ھاتھ پاؤں رسیوں سے جکڑ لیے ھیں اور چھری ھاتھ میں پکڑے آنکھ بند کئے کچھ پڑھ رھی ھے..
‏بہت سے لوگ اُس عورت کے گرد جمع تھے .
اور بُت خانے کا کاھن بڑے ‏فخر سے بُت کے قریب ایک بڑے پتّھر پر بیٹھا یہ سب دیکھ رھا تھا..
‏شیوانا جب عورت کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ اُسے اپنی بیٹی سے بے پناہ محبّت ھے اور وہ بار بار اُس کو گلے لگا کر والہانہ چوم رھی ھے.
مگر اِس کے باوجود معبد کدے کے بُت کی خوشنودی کے لئے اُس کی قربانی بھی دینا چاھتی ھے.
‏شیوانا نے اُس سے پوچھا کہ وہ کیوں اپنی بیٹی کو قربان کرنا چاہ رھی ھے..
عورت نے جواب دیا..
"کاھن نے مجھے ھدایت کی ھے کہ میں معبد کے بُت کی خوشنودی کے لئے اپنی عزیز ترین ھستی کو قربان کر دوں تا کہ میری زندگی کی مشکلات ھمیشہ کے لئے ختم ھو جائیں.."
‏شیوانا نے مسکرا کر کہا..
"مگر یہ بچّی تمہاری عزیز ترین ھستی تھوڑی ھے..؟
اِسے تو تم نے ھلاک کرنے کا ارداہ کیا ھے..
تمہاری جو ھستی سب سے زیادہ عزیز ھے وہ تو پتّھر پر بیٹھا یہ کاھن ھے کہ جس کے کہنے پر تم ایک پھول سی معصوم بچّی کی جان لینے پر تُل گئی ھو..
یہ بُت احمق نہیں ھے..
وہ تمہاری عزیز ترین ھستی کی قربانی چاھتا ھے.. تم نے اگر کاھن کی بجائے غلطی سے اپنی بیٹی قربان کر دی تو یہ نہ ھو کہ بُت تم سے مزید خفا ھو جائے اور تمہاری زندگی کو جہنّم بنا دے.."
‏عورت نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بچّی کے ھاتھ پاؤں کھول دیئے اور چھری ھاتھ میں لے کر کاھن کی طرف دوڑی‏
مگر وہ پہلے ھی وھاں سے جا چکا تھا..
کہتے ھیں کہ اُس دن کے بعد سے وہ کاھن اُس علاقے میں پھر کبھی نظر نہ آیا..
‏دنیا میں صرف آگاھی کو فضیلت حاصل ھے اور ‏واحد گناہ جہالت ھے..
‏جس دن ہم اپنے "کاہنوں" کو پہچان گئے ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے !!
9 notes · View notes
aakhripaigham · 3 days
Text
Mataa-e-Bebaha Hai Dard-o-Souz-e-Arzoo-Mandi Maqam-e-Bandagi De Kar Na Loon Shan-e-Khudawandi
Slow fire of longing—wealth beyond compare; I will not change my prayer‐mat for Heaven’s chair!
متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزومندی مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
متاعِ بے بہا: نہایت قیمتی سرمایہ۔ درد و سوز: انتہائی آہ و زاری اور سوز کے ساتھ دعا کرنا۔ آرزومندی: شدید خواہش کا اظہار مقام بندگی: اللہ کی اطاعت اور بندگی کا مقام ۔ شانِ خداوندی: اللہ کی شان کے مقابل
مطلب:اس شعر میں علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ انسان کے لیے سب سے قیمتی دولت اللہ کے ساتھ عشق اور اس کے قرب کی تڑپ ہے۔ یہ وہ آرزو ہے جو دنیا کی کسی بھی مادی دولت سے زیادہ اہم اور قیمتی ہے۔ بندگی کا مقام، یعنی اللہ کی عبدیت، اتنی عظیم ہے کہ اس کے بدلے میں خداوندی (اللہ جیسی شان و عظمت) بھی قبول نہیں کی جا سکتی۔
اقبال یہاں عبدیت کی عظمت کو بیان کرتے ہیں، جو اتنی بلند ہے کہ اللہ نے خود اپنے محبوب نبی ﷺ کے لیے "عبدہ و رسولہ" (یعنی اس کے بندے اور رسول) کا مقام عطا کیا۔ اقبال فرماتے ہیں کہ بندہ بننے کی عزت میرے لیے خدا کی شان حاصل کرنے سے زیادہ عزیز اور عظیم ہے۔
(Bal-e-Jibril - Ghazal - 12)
2 notes · View notes
aftaabmagazine · 4 months
Text
Qahar Asi's Autumnal Whispers of Loss
youtube
Qahar Asi's Autumnal Whispers of Loss
By Farhad Azad
The poet قهار عاصی Qahar Asi, enveloped in the golden hues of پاییز autumn, recites his moving poem همه “All”— the exact recording date unknown, perhaps the fall of 1990, the year the poem is dated, and recorded in or around Kabul. The season itself, a melancholic motif in Farsi poetry, channels the poem's themes of loss, sadness and the winds of drastic change.
The acclaimed filmmaker صدیق برمک Siddiq Barmak wrote that Asi had a vision of blending prose and poetry for the screen. This footage, perhaps alongside the iconic ای کابل "O Kabul," where Asi recites amidst a ruined cityscape, hints at his cinematic aspirations. Soon after, artistic repression further worsened under the new Islamist regime starting in 1992, with music silenced and his longtime collaborator, vocalist Farhad Darya, in exile.
The poem itself is a cry for a fractured homeland void of its چراغ و عرفان “light and spirituality” amongst the نسيم تلخ “bitter breeze.” Asi mourns the exodus of loved ones, their absence echoing in the desolate landscape. 
Tumblr media
Notably absent from this recitation are the poem's final lines, where Asi names his exiled friends, including عظیم نوذر الیاس Azim (fellow poet Noozar Elias), ملیحه احراری Maliha Ahrari (a friend and collaborator at RTA in the Cinematic Program and Film Narration), کنیشکا Kanishka (?), فرهاد دریا Farhad Darya. These lines conclude the poem with a bitter question, a challenge to himself and to those who remain: 
نه عظيم نی مليحه نه كنيشكا نه دريا
Neither Azim, nor Maliha, nor Kanishka, nor Darya remains
تو چرا نشسته ای عاصی غم‌گسار رفته
Why do you sit here, Asi? The companions have left
Asi’s lyrics resonate with another poet, 600 hundred years earlier, حافظ Hafiz, most likely composed when his city of Shiraz fell to the fundamentalist امیر مبارزالدین محمد مظفر Amir Mubariz al-Din Muhammad Muzaffar (r. 1353-1358) grip. They reflect the tragic rhythm of history in this region, where vibrant societies, once bastions of progress, crumble under the weight of extremism:
یاری اندر کس نمی‌بینیم یاران را چه شد
I don’t see any friends, where have they gone?
دوستی کی آخر آمد دوستداران را چه شد
When did our friendship end, what happens to those who loved?
This question resonates beyond Asi, speaking to the millions who stayed behind while others sought refuge abroad. It's this profound empathy, this ability to voice the unspoken grief of a people, that captioned Asi "the people's poet." His verses transcend mere statistics, giving voice to the forgotten and silenced. 
For me, it stirs the memory of my last encounter with my paternal grandfather who gazed at us before we left, “This will be the last moment we meet.” His prediction was unfortunately right.  
In the wider theater of world politics, Asi's subjects may be reduced to numbers, but his poetry restores their humanity. His words, inscribed in time on this grainy video, remind us that even in the face of immense loss, the spirit of the humanities survives. 
* Special thanks to Parween Pazhwak for her invaluable contributions in researching this introduction and providing translational edits for the poem.
همه
All
قهار عاصی 
Qahar Asi 
همه ترک یار گفته‌ست و ز ملک يار رفته
All have spoken of leaving friends and departed from the beloved land 
همه دل بكنده از این‌جا، همه زين ديار رفته
All have detached their heart from here, everyone has left this realm
همه قصد دوردست، از وطن تباه كرده
All have set their sights on distant places, away from this ruined homeland
همه زين ولايت سوگ به زنگ‌بار رفته
All woefully have left this grief-stricken heartland
چه كنند اگر بپايند غريبه‌هایی اين‌جا
What does it matter if these poor souls remain here?
ز یکی نديمه‌ی دل، ز يكی نگار رفته
When one's confidante of the heart, one's dear friend, has left 
به یکی خراب ماند وطن چراغ و عرفان
For one, the homeland of light and spirituality remains in ruins
ز بس اشک و آه مانده، ز بس انتظار رفته
From so many tears and sighs remain, from so much longing it has vanished 
ز بهار بی‌بر‌‌و‌‌بار، نسيمِ تلخ اين‌جا
From this hollow and bitter breeze of this place    
همه زرد زرد گشته همه زار زار رفته
Everything has turned yellow, everything has become barren
کابل، خزان ۱۳۶۹
Kabul, Fall 1990
Translated from the Farsi by Farhad Azad
4 notes · View notes